غزہ: اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد 54 ہزار سے تجاوز، لوگ کچرے سے کھانا تلاش کر بھوک مٹانے کو مجبور

غزہ: اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد 54 ہزار سے تجاوز، لوگ کچرے سے کھانا تلاش کر بھوک مٹانے کو مجبور

غزہ کی زمینی سچائی کو سمجھنے کے لیے کسی رپورٹ کی نہیں، بس ایک نظر کی ضرورت ہے۔ بچے بغیر کپڑوں کے ہیں، اسپتالوں میں دوائیوں کی جگہ موت بانٹی جا رہی ہے، اسکول اب یا تو ملبہ کا ڈھیر ہے یا پناہ گزیں کیمپ۔

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر / یو این آئی</p></div><div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر / یو این آئی</p></div>

اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر / یو این آئی

user

غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 54 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف بموں اور میزائلوں سے مارے گئے لوگوں کی نہیں، بلکہ اس میں وہ معصوم بھی شامل ہیں جو بھوک اور علاج کی کمی اور ناکہ بندی کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔ غزہ کے وزیر صحت کے مطابق محاصرہ اور بمباری والے علاقوں میں جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک مرنے والوں کی تعداد 54 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔

’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس اور امریکی افسران کی جانب سے جنگ بندی کے سلسلے میں متضاد پیغام موصول ہو رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق حماس نے مبینہ طور پر امریکی تجویز کو قبول کر لیا ہے، لیکن امریکہ کی جانب سے اس پر تصدیق کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ یہ وہم اور غیر یقینی صورتحال غزہ کے لوگوں کے لیے اور بھی بڑی مصیبت بن چکی ہے۔

غزہ کی سب سے دردناک تصویریں ان سڑکوں سے سامنے آ رہی ہیں، جہاں لوگ اب کچرے سے کھانا تلاش کر اپنی بھوک مٹانے کو مجبور ہیں۔ 40 سالہ اسلام ابو تیمہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ انہوں نے القدس اوپین یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویشن کیا ہے۔ لیکن آج ان کا اور ان کے 5 بچوں کا پیٹ صرف اس کھانے سے بھرتا ہے جو شہر کے کچرے سے جمع کیا جاتا ہے۔ ان کے شوہر جنگ میں زخمی ہو چکے ہیں اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ ابو تیمہ کے آنکھوں میں آنسو نہیں بلکہ ایک بے بسی ہے جو ان کے ہر لفظ میں جھلکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں تعلیم یافتہ ہوں لیکن پھر بھی کچرے سے کھانا تلاش کرتی ہوں۔ اگر ایسا نہ کروں تو میرے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ نہ راشن پہنچتا ہے، نہ عطیہ کردہ رسوئی سے کچھ ملتا ہے۔‘‘

ابو تیمہ جیسی خواتین ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ یہ کہانی کسی ایک کی نہیں، بلکہ 20 لاکھ لوگوں کی ہے۔ 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ میں مکمل ناکہ بندی شروع کر دی تھی۔ کھانے پینے کی تمام طرح کی اشیاء، دوائیاں، ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ پر روک لگا دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اگر جلد ہی بڑے پیمانے پر راحت نہ پہنچی تو یہ انسانی بحران ایک تباہی میں تبدیل ہو جائے گا۔ حالانکہ 26 مئی کو راحت کے طور پر 170 ٹرک کیروم شالوم کراسنگ سے غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ نے اسے ناکافی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں روزانہ کم از کم 600 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے، تاکہ بنیادی ضرورتیں پوری کی جا سکیں۔

آج حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ مدد آتی بھی ہے تو ان تک نہیں پہنچ پاتی ہے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ امیروں اور طاقتور جماعتوں کے ذریعہ امدادی سامان پر قبضہ کر لیا جاتا ہے اور غریبوں کے حصے میں آتا ہے کچرہ، بھوک اور ذلت۔ غزہ کی زمینی سچائی کو سمجھنے کے لیے کسی رپورٹ کی نہیں، بس ایک نظر کی ضرورت ہے۔ بچے بغیر کپڑوں کے ہیں، اسپتالوں میں دوائیوں کی جگہ موت بانٹی جا رہی ہے، اسکول اب یا تو ملبہ کا ڈھیر ہے یا پناہ گزیں کیمپ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے