دنیا ہماری کہانی پر کتنا یقین کرتی ہے؟… آشیش رے

دنیا ہماری کہانی پر کتنا یقین کرتی ہے؟… آشیش رے

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کا موقف رکھنے کے لیے دنیا بھر میں بھیجے گئے کُل جماعتی نمائندہ وفود کوئی اچھی خبر لے کر لوٹیں گے؟

<div class="paragraphs"><p>جاپان پہنچے کُل جماعتی وفد کے اراکین، تصویر <a href="https://x.com/sidhant">@sidhant</a></p></div><div class="paragraphs"><p>جاپان پہنچے کُل جماعتی وفد کے اراکین، تصویر <a href="https://x.com/sidhant">@sidhant</a></p></div>

جاپان پہنچے کُل جماعتی وفد کے اراکین، تصویر@sidhant

user

بین الاقوامی رشتوں میں اپنی صلاحیت سے آگے بڑھ کر کارکردگی پیش کرنے سے متعلق ہندوستان کا باوقار ماضی رہا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے ذہن میں ہمارے شمال مغربی پڑوسی کے ساتھ مزید ایک مشہور ٹکراؤ کی یادیں اب بھی تازہ ہوں گی۔ 1971 کا سال تھا۔ اس جنگ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرنے والی کسی بھی عظیم طاقت کی بات تو دور، متحدہ ریاست ہائے امریکہ کا رخ نئی دہلی کے تئیں پوری طرح سے عدالت والا تھا۔ اس نے ہندوستان کو مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کو آزاد کرانے سے روکنے کے لیے خلیج بنگال میں ایک خطرناک بحری بیڑہ تک بھیج دیا تھا۔ لیکن ماسکو کے ساتھ ہندوستان کی دوستی یقینی بنا رہی تھی کہ سوویت بیڑے نے امریکیوں کا پیچھا کیا اور انھیں روک کر رکھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اُس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو کس بہادری اور دور اندیشی کے ساتھ شکست دی تھی۔

ہندوستان نے ایک پیشہ ور، صبر آزما جنگ لڑی، جس میں پاکستانی عوام پر نفرت بھری بیان بازی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ کام پورا ہو گیا تو ہندوستان نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد اس نے پاکستان کو بلاواسطہ بات چیت کے لیے مدعو کیا اور جولائی 1972 میں تاریخی شملہ سمجھوتہ پر دستخط ہوا۔ اس سمجھوتہ نے دونوں ممالک کو اپنے سبھی زیر التوا ایشوز دو فریقی انداز میں نمٹانے کے لیے راستہ ہموار کیا۔

دلچسپ بات ہے کہ اس کے بعد پاکستان کے ساتھ سبھی فوجی تصادم تب ہوئے جب ہندوستان کے اقتدار پر بی جے پی کا قبضہ تھا۔ ہر بار کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکہ کو کردار نبھانے کی اجازت دی گئی۔ 1999 کی کارگل جنگ میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مداخلت کی تھی۔ 2019 میں پلوامہ/بالاکوٹ معاملہ (امریکی صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کار کے دوران) اور اب پہلگام میں قتل عام اور ’آپریشن سندور‘ (ٹرمپ کی دوسری مدت کار میں) کے بعد امریکی انتظامیہ کی ہائی پروفائل مداخلت سامنے آئی۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ تازہ جنگ بندی کا منصوبہ بنانے میں اپنے کردار سے متعلق بات کرنا بند نہیں کرنے والے ہیں۔

اپنی یاد داشت ’نیور گیو این انچ‘ میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے 2019 میں امریکی ثالثی کی تصدیق کی ہے۔ اس مہینے جنگ بندی کے لیے تو صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار تشہیر کرتے نظر آئے، کہ انھوں نے خود بھی، اور ان کے نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کس طرح ’ثالثی‘ نبھائی۔ بھکت جماعت اور حامی بھلے ہی ایسی کسی ثالثی سے انکار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی ایک کیے ہوئے ہوں، وزیر اعظم نریندر مودی نے سیدھے طور پر اس کی تردید کرنے کے لیے ایک لفظ بھی بولنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے ذریعہ امریکی ثالثی سے انکار سچائی سے منھ موڑنے جیسا ہے۔ معاملے کا نچوڑ یہ نہیں ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز) نے ’جنگ‘ ختم کرنے کے لیے فون پر بات کی، بلکہ یہ ہے کہ وینس نے مودی اور روبیو نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ڈی جی ایم او کے ذریعہ ہاٹ لائن کا استعمال کرنے سے پہلے بات کی تھی۔ اور یہ بھی کہ ’مکمل اور فوری‘ جنگ بندی کا اعلان سب سے پہلے ٹرمپ نے کیا تھا۔

ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کشمیر پر دونوں فریقین کے درمیان ’غیر جانبدار مقام پر‘ بات چیت ہوگی، ساتھ ہی یہ اشارہ دینا بھی نہیں بھولے کہ وہ اس میں ریفری کا کردار نبھا سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ سب کسی خوش کن تجربہ سے کم نہیں تھا۔ ویسے بھی ہندوستان کے ذریعہ سندھو آبی معاہدہ کو ’ملتوی‘ کرنے کے جواب میں اس نے شملہ سمجھوتہ کو معطل کر دیا تھا۔

ٹرمپ کے بیانات نے نہ صرف کشمیر ایشو کا ’انٹرنیشنلائزیشن‘ کر دیا، بلکہ انھوں نے دہائیوں بعد دنیا کی نظروں میں ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی مقام پر لا کر کھڑا کر دیا، جس نے عالمی ادراک سے آزاد ہونے میں ہندوستان کی کامیابی پر پانی پھیر دیا ہے۔

1966 میں قائم ایک غیر نفع بخش ادارہ، امریکن کونسل آف ینگ پالیٹیکل لیڈرس کا اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ ہے کہ وہ ’امریکہ اور دنیا میں ابھرتے لیڈران کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ شراکت داری میں کئی بین الاقوامی پروگرام چلاتا ہے‘۔ امریکہ کے تئیں وفاداری نہ بھی کہیں تو یہ اس کے لیے تعریف کا جذبہ پیدا کرنے والے پروگرام کے لیے موافق لوگوں کو مدعو کرتا ہے۔ 1994 میں امریکہ حامی مانے جانے والے ہندوستانیوں میں سے منتخب کیے جانے کی باری نریندر مودی کی تھی، لیکن لگتا ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات میں ان کے مشتبہ کردار کے بعد محکمہ خارجہ کے ذریعہ امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کے باوجود انکل سیم کے تئیں ان کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

حالانکہ ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس کے برآمدے میں مہمان کا استقبال کرنے کی روایت سے الگ ہٹ کر اس سال فروری میں مودی کا اس طرح استقبال نہیں کیا تھا۔ اپنی موجودہ مدت کار میں، یہ واحد موقع تھا جب ٹرمپ نے کسی کو یہ احترام نہیں دیا تھا۔ یہاں تک کہ یوکرینی صدر ولودمیر زیلنسکی، جن کے ساتھ بعد میں ہوئی پریس کانفرنس کے درمیان ایک بہت بڑا تنازعہ بھی ہوا تھا، کو بھی یہ احترام ملا۔

امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ ویسا نہیں کیا جیسا چین نے اس ماہ کے 4 روزہ فوجی تصادم سے قبل یا اس کے درمجیان پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ یہاں تک کہ ترکی اور آذربائیجان بھی کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ 57 رکنی اسلامی کوآپریشن آرگنائزیشن نے جنوبی ایشیائی خطہ میں کشیدگی بڑھانے والے اہم اسباب کی شکل میں ہندوستان کے ’اسلامک ریپبلک آف پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات‘ کا حوالہ دیا۔ ہندوستان کے لیے اس سے بھی زیادہ مایوس کن بات اس کا یہ کہنا رہا کہ ’اَن سلجھا (کشمیر) تنازعہ جنوبی ایشیا میں امن اور تحفظ کو متاثر کرنے والا اہم ایشو بنا ہوا ہے‘۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو مودی کے ذریعہ عرب حکمراں کے ساتھ بار بار معانقہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ دفاعی معاہدوں کے اہم نفع کنندہ روس اور فرانس نے بھی ’دونوں فریقین‘ سے صبر کرنے کی ہی گزارش کی۔ ان میں سے کوئی بھی ملک ہندوستان کے اس الزام کے ساتھ کھل کر کھڑا نہیں دکھائی دیا کہ پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ پاکستانی اسٹیٹ سسٹم کے ذریعہ اسپانسر تھا۔

فوجی لین دین، جس میں نئے جنگی طیارے، میزائل، ڈرون اور ایئر ڈیفنس سسٹم شامل ہیں، پر دھول بھی نہیں جمی تھی کہ ٹرمپ نے یہ اعلان کرتے ہوئے مزید ایک دھماکہ کر دیا کہ ہندوستان زیرو ٹیرف پر راضی ہو گیا ہے۔ ہندوستان نے اس کی بھی تردید نہیں کی۔

جنوری میں اپنے عہدہ پر واپسی کے فوراً بعد ٹرمپ نے ان ہندوستانیوں پر ظلم کی مثال پیش کی، جو یا تو غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں داخل ہوئے تھے یا غیر قانونی طریقے سے زیادہ مدت تک رکے ہوئے تھے۔ انھیں زنجیروں میں باندھ کر ملک سے باہر نکالا گیا۔ اس معاملہ میں بھی ہندوستانی وزیر اعظم کی طرف سے کسی طرح کی مخالفت ظاہر نہیں کی گئی، نہ ہی ایک آواز اٹھی۔

پہلگام اور آپریشن سندور کے بعد دنیا نے جیسا رد عمل ظاہر کیا، اس سے لگتا ہے کہ ہندوستان کے دوست ممالک کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔ اپنے پڑوسیوں کے درمیان تو وہ بغیر دوست کے ہی ہے، ساتھ ہی کہیں بھی اس کا کوئی دوست نہیں بچا ہے۔

اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ سمیت اپنے 7 نمائندہ وفود 33 ممالک میں بھیج کر ہندوستان کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ایک قومی رضامندی کا مظاہرہ، جسے بنانے کے لیے اس نے اپنے ملک میں کوئی حقیقی بنیادی کوشش نہیں کی؟ دنیا کو نام نہاد ’نئی لال لائن‘ کے بارے میں بتانا، ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد فوجی جوابی کارروائی کرنے کے اپنے حق کی دعویداری جاننا؟ اس بات کا امکان تو کم ہی ہے کہ کوئی اسے قبول کرے گا، لیکن یہ تجربہ حقیقت میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان رشتوں کو مضبوط کر سکتا ہے، خاص کر اس لیے کیونکہ پاکستان جوابی حملے میں شامل ہے۔

ظاہر ہے ثبوت مانگے جائیں گے، سوال بھی پوچھے جائیں گے۔ مغربی ملک مودی کے ان کثیر پارٹی سفارتی مشنوں کو یہ دکھانے کی کوشش سمجھ رہے ہیں کہ کشمیر اور آپریشن سندور کے مسئلہ پر ہندوستان متحد ہے۔ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کو بھی اس فرق کو دھیان میں رکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی ہندوستان کے فوجی حملے کے بعد اٹھے سبھی سوالات سے خود کو جوڑ لیں، خاص طور سے پہلگام میں سیکورٹی کی غلطی اور ایک ماہ بعد بھی دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکامی کے بارے میں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے