ٹرمپ حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پوچھا ’کون کون غیر ملکی طلبا ہیں ایکٹیوسٹ‘، یونیورسٹی نے کر دیا مقدمہ

ٹرمپ حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پوچھا ’کون کون غیر ملکی طلبا ہیں ایکٹیوسٹ‘، یونیورسٹی نے کر دیا مقدمہ

ٹرمپ انتظامیہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ نئے حکم میں ٹرمپ حکومت نے کہا ہے کہ 72 گھنٹے کے اندر ہارورڈ بتائے کہ کون کون غیر ملکی طلبا ایکٹیوسٹ ہیں اور اس پر کیا کارروائی ہوئی۔

<div class="paragraphs"><p>ڈونلڈ ٹرمپ، ہارورڈ یونیورسٹی</p></div><div class="paragraphs"><p>ڈونلڈ ٹرمپ، ہارورڈ یونیورسٹی</p></div>

ڈونلڈ ٹرمپ، ہارورڈ یونیورسٹی

user

ہارورڈ یونیورسٹی نے اس فیصلے پر ٹرمپ حکومت کے خلاف مقدمہ داخل کر دیا ہے جس میں انھوں نے آئی وی لیگ اسکول کی بین الاقوامی طلبا کو داخلہ دینے کی صلاحیت کو رَد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرس کے مطابق بوسٹن فیڈرل کورٹ میں داخل کی گئی شکایت میں ہارورڈ نے اس منسوخی کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم اور دیرگ فیڈرل قوانین کی ’واضح خلاف ورزی‘ قرار دیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس فیصلے سے یونیورسٹی اور 7 ہزار سے زائد ویزا ہولڈرس پر ’فوری اور تباہناک اثرات‘ پڑے ہیں۔

یہ قدم ٹرمپ انتظامیہ کے ذریعہ فیڈرل اسٹوڈنٹس اور ایکسچینج وزیٹر پروگرام (ایس ای وی پی) کے تحت غیر ملکی طلبا کو داخلہ دینے سے متعلق ہارورڈ کی اتھارٹی کو رَد کرنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اٹھایا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کو گزشتہ 5 سالوں میں کسی بھی بین الاقوامی طالب علم کے ذریعہ احتجاجی مظاہرہ کی آڈیو اور ویڈیو کلپ سمیت سبھی ریکارڈ اور ان کے مکمل ڈسپلنری ریکارڈ امریکہ کے محکمہ داخلہ کو سونپنے کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے، اور یہ مدت کار 22 مئی 2025 سے شروع ہو چکی ہے۔

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے تقریباً 6 ہزار طلبا پر اب یہ تلوار لٹک رہی ہے کہ اگر انھیں اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے تو انھیں اب امریکہ کی دوسری یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا پڑے گا۔ ان طلبا میں تقریباً 800 ہندوستانی اور تقریباً 1000 چینی ہیں۔ دراصل ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کی اس منظوری کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت وہاں بین الاقوامی طلبا پڑھنے آ سکتے تھے۔

غور طلب ہے کہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ کا عمل مارچ ماہ میں ہی پورا ہو چکا ہے اور اس بات پر کوئی وضاحت نہیں ہے کہ آخر کس طرح ہارورڈ کے طلبا دوسری یونیورسٹیوں میں داخلہ لے پائیں گے۔ امیگریشن افسران کا کہنا ہے کہ امریکہ کی وزارت داخلہ نے اس کام کے لیے یوں تو کوئی میعاد طے نہیں کی ہے، لیکن لگتا ہے کہ طلبا کو متبادل یونیورسٹی منتخب کرنے کے لیے مناسب وقت مل جائے گا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے اخبار کریمسن ہارورڈ نے ایک اداریہ میں امید ظاہر کی ہے کہ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے اس حکم کو عدالت میں چیلنج پیش کرے گا۔ اخبار نے کئی بین الاقوامی طلبا کی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حکومت کے اس حکم کے بعد طلبا گھبرائے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک طالب علم کارل مولڈن نے کہا کہ ’’حکومت ہمیں اب دوسری یونیورسٹی میں جانے کو کہہ رہی ہے۔ اس طرح ہمیں اب نئے سرے سے داخلہ کا پورا عمل انجام دینا ہوگا۔ یونیورسٹی منتخب کرنا ہوگا، اپنے اکیڈمک کریڈٹ کو ٹرانسفر کرنا ہوگا، اور سب سے بڑی بات ہمارے سارے دوست ہم سے بچھڑ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو…۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے