امریکی سامراج کی مخالفت کے باوجود آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا آخری دورہ پاکستان یادگار تھا

امریکی سامراج کی مخالفت کے باوجود آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا آخری دورہ پاکستان یادگار تھا

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار "توقیر کھرل” نے مہر نیوز اردو کو "شہید آیت اللہ رئیسی” کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک خصوصی نوٹ بھیجا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:

عالم، مجاہد، خادم امام رضا علیہ السلام اور خادم امت اسلامی، عظیم انقلابی رہنما آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کی شہادت نما وفات صرف ایرانی قوم کے لئے نہیں بلکہ امت مسلمہ کا بہت بڑا نقصان اور ہم سب کا مشترکہ غم ہے۔ ایک سال بعد بھی یہ زخم بھرا نہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس عظیم فرزند کی زندگی امت کی سربلندی، مظلوموں کی حمایت، فلسطین کی آزادی اور مستضعف و کمزور انسانوں کی مدد کے لئے وقف تھی۔ سید کی حادثاتی شہادت نے دنیا بھر کے حریت پسند، استعمار ستیز اور پاکیزہ فطرت انسانوں کو سوگوار کیا۔ مبصرین نے ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا تھا۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شہادت سے ایک ماہ پہلے پاکستان کا آخری اور تاریخی دورہ کیا۔ یہ دورہ کئی حوالوں سے یادگار اور منفرد تھا آخری دورہ پاکستان کے دوران ہی انہوں نے پاکستانی قوم سے خطاب کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، جو کچھ وجوہات کی بنا پر پوری نہ ہوسکی۔ بدقسمتی سے، 19 مئی 2024 کو ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں وہ شہید ہوگئے، اور یہ حسرت ان کے ساتھ ہی رہی۔ اس دورے کو پاک-ایران تعلقات میں ایک نئے باب کے آغاز کے طور پر دیکھا گیا، کیونکہ اس دوران دوطرفہ امور، پاک-ایران گیس پائپ لائن، اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اہم بات چیت ہوئی تھی۔ پاکستانی قیادت، بشمول صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقاتوں نے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی بنیاد رکھی۔رئیسی کی شہادت پر پاکستانی عوام اور قیادت نے گہرے دکھ کا اظہار کیا، جو سوشل میڈیا پوسٹس سے بھی عیاں ہے، جہاں ان کے دورے اور پاکستانیوں سے ان کی قربت کو یاد کیا گیا۔ یہ کسک نہ صرف ان کے ادھورے ارادے کی وجہ سے ہے بلکہ اس امید کی وجہ سے بھی جو ان کے دورے نے دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے جگائی تھی۔اگرچہ دو دن اس سفر کے لحاظ سے بہت کم تھے لیکن2دنوں میں کم وقت میں زیادہ استفادہ کیا گیا تھاعسکری وسیاسی قیادت سے ملاقاتیں اور مختلف اداروں کے دورہ سے دونوں ممالک کے تعلقات پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔

امریکی سامراج کی مخالفت کے باوجود آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا آخری دورہ پاکستان یادگار تھا

ایران کے اسرائیل پر تاریخی حملہ کے بعد پاکستان کے جوان بزرگ بچے یہ سب چاہتے تھے کہ صدر رئیسی کو قریب سے دیکھیں سنیں اور اپنے جزبات کا اظہار کریں۔ماضی میں یہ شاندار روایت رہی ہے کہ جب بھی  سربراہانِ  مملکت پاکستان کے دورہ پر آتے تو کم از کم لاہور کی سطح پر عوامی خطاب ہوتا۔رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای جب صدر ایران تھے تو وہ ضیاء الحق کا دور تھا انکاپاکستان میں تاریخی اور پرتپاک استقبال اور عوامی اجتماع ہوا تھا۔ ایران کے سابق صدر خاتمی نے مشرف دور میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا تھا صدر روحانی جب دورہ پاکستان پر آئے تو راحیل شریف کا دورہ تھا متنازعہ معاملات کا ذکر کرکے  امریکی  غلامی کا عملی ثبوت دیا گیا۔ صدر ایران آیت اللہ رئیسی شہید کے دورہ کے دوران پاکستان کی حکومت امریکی سامراج کے دباو میں تھی۔ اس کے باوجود یہ کامیاب اور شاندار دورہ رہا۔ جن معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں ان پر سنجیدگی سے عملدرآمد شہید سے کو خراج تحسین پیش کرنے مترادف ہوگا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صدر ایران کے حالیہ دورہ سے امریکہ نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ امریکی سامراج کے علاوہ اُن کے دسترخوان کی ہڈیاں چبانے والوں کو بھی تکلیف لاحق تھی۔

یادگار لمحات

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی  22 اپریل سے 24 اپریل تک 3 روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں مصروف وقت گزارا تھا۔ اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقاتوں میں پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات کی مختلف جہتوں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی تھی۔پاک ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، زراعت، تجارت، مواصلات، توانائی اور عوامی رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ پاکستان اور ایران نے 8 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے تھے اور دو طرفہ تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانے پر بھی اتفاق کیا تھا۔

ایرانی خاتون اول جمیلہ عالم الہدی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، کابینہ ارکان، اعلیٰ حکام اور بڑا تجارتی وفد بھی صدر کے ہمراہ تھا۔ وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس ریاض حسین پیرزادہ نے نورخان ایئر بیس پر ان کا استقبال کیا تھا، پاکستانی ثقافت کے مطابق بچوں نے ایرانی صدر کو گلدستے بھی پیش کیے تھے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے پہلے روز وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ایرانی مہمانوں کو ظہرانہ دیا گیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سمیت متعدد وزرا نے ایرانی صدر سے ان کے ہوٹل میں ملاقاتیں کی تھیں۔

امریکی سامراج کی مخالفت کے باوجود آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا آخری دورہ پاکستان یادگار تھا

ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے وزیراعظم ہاؤس پہنچنے پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے استقبال کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کے دستے کی جانب سے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔ گارڈ آف آنر کے بعد وزیراعظم شہبازشریف نے معزز مہمان ایرانی صدر اور خاتون اول کو فرداً فرداً وفاقی کابینہ کے ارکان سے متعارف کروایا تھا۔ ایرانی صدر نے سب سے باری باری مصافحہ کیا۔ ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے عالمی یوم ارض کی مناسبت سے وزیراعظم ہاؤس میں پودا بھی لگایا تھا۔

ایرانی صدر نے اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کا بڑا پوٹینشل ہے اس پوٹینشل اور صلاحیت کے تبادلے سے دونوں ملکوں کے عوام کا فایدہ ہوگا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ملک اپنے تجارتی اقتصادی، ثقافتی تعلقات کو بڑھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا دونوں ملکوں کا مختلف مسئلوں پر یکساں مؤقف ہے، پھر وہ دہشت گردی ہو، منظم جرائم دونوں ملکوں نے مختلف فورمز پر ایک جیسا مؤقف اختیار کیا۔ ہم انفرادی نہیں ملکوں کی سطح پر اپنے تعلقات میں وسعت چاہتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم قابل قبول نہیں ہم نے اس کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم اپنی مشترکہ سرحدوں کو اپنے عوام کے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، ہم نے بارڈر مارکیٹس کا فضائی دورہ کیا تھا لیکن یہ کافی نہیں۔ دونوں اطراف کے عوام کے فائدے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایران پر غیرقانونی تجارتی پابندیوں سے ایران کو فائدہ ہوا، ایران نے ان پابندیوں کو اپنی اقتصادی حالت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان اور ایران کے درمیان مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 8 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس موقع پر ایرانی صدر اور وزیراعظم شہباز شریف بھی موجود تھے۔ یادداشتوں پر دونوں ممالک کے متعلقہ افراد نے دستخط کیے تھے۔صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا ایوان صدر پہنچنے پر استقبال کرنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔ پاک ایران صدور نے ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا اور موجودہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے مکالمے اور تعاون کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور ایران مشترکہ مذہب، تاریخ اور ثقافت کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے تعاون کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کوششوں کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال اور علاقائی چیلنجوں کے حل کے لیے امن اور تعمیری بات چیت کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اراکین اسمبلی قومی اسمبلی پر مشتمل وفد کے ہمراہ ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں پارلیمانی روابط سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ملاقات میں علاقائی استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے مشترکہ کوششوں اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا تھا کہ پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دہشت گرد پاک ایران تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں مسلح افواج کے درمیان تعاون کو فروغ دے کر پاکستان اور ایران دونوں اپنی اقوام اور خطے کے لیے امن و استحکام حاصل کرسکتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور ایئرپورٹ پہنچنے پر ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا استقبال کیا تھا۔ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں راویتی پکوانوں سے معزز مہمانوں کی تواضع کی گئی تھی۔ اس موقع پر باہمی دلچسپی کے امور پر بھی گفتگو کی گئی تھی۔مزار اقبال پر حاضری اور فاتحہ کے بعد ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی قوم کی طرح پاکستانی قوم پر بھی ناز ہے جنہوں نے صہیونی قوتوں کے خلاف ٹھوس مؤقف اختیار کیا ہے۔ یہ تعلق دونوں اقوام کے درمیان نہ ٹوٹنے والا بندھن بن چکا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر کا بھی یہی کہنا ہے کہ جیت بالآخر غزہ کے مظلوم عوام کی ہوگی، تباہی، ہزیمت اور شکست غاصب قوتوں کا مقدر بنے گی۔

ایرانی صدر نے کہا کہ اقبال کی شخصیت ہمارے لیے بہت اہم ہے، اقبال استعمار کے خلاف کھڑے تھے، انہوں نے ہمیں جو پیغام دیا وہ قابل تقلید ہے۔ جو وارداتِ قلبی اقبال پر بیتی وہ ان کے کلام کا خاصا ہے۔ ان کی شاعری ایران اور پاکستان کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے۔اس سے قبل ایرانی صدر نے مزار اقبال پر پھول چڑھائے اور مہمانوں کی کتاب پر اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے تھے۔ 

ایرانی صدر کو اقبال کا فارسی کلام بھی سنایا گیا۔ اس موقع پر بادشاہی مسجد کے امام مولانا عبدالخبیر آزاد بھی موجود تھے۔ ایرانی صدر کا ایئر پورٹ پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، گورنر کامران ٹیسوری، آصفہ بھٹو، شرجیل میمن اور دیگر نے استقبال کیا تھا۔ ایرانی صدر ایئرپورٹ سے گورنر ہاؤس پہنچے تھے۔ انہوں نے گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ سے ون ٹو ون ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ایرانی صدر اور گورنر سندھ نے دونوں ممالک کے مابین ثقافتی تبادلہ بڑھانے پر اتفاق کیا تھا جبکہ گورنر سندھ نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کوپی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی تھی۔

ایرانی صدر نے عشائیے سے خطاب میں واضح کیا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران تعلقات خراب نہیں کر سکتی، دونوں ممالک کے تعلقات تاریخ، ثقافت اور مذہب کے مضبوط رشتے سے جڑے ہیں۔ انھوں نے صیہونی ریاست کے خلاف ڈٹے رہنے کا اعلان بھی کیا اور فلسطین کی آزادی کو اولین ترجیح قرار دیا تھا۔ایرانی صدر کراچی آمد کے بعد مزار قائد پہنچے تھے جہاں انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی تھی۔ انہوں نے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات بھی قلم بند کیے تھے۔ ایرانی صدر کی مزار قائد پر حاضری کے موقع پر گورنر کامران ٹیسوری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ بعد میں ایرانی صدر کے دورہ پاکستان مکمل کرکے ایران روانہ ہو گئے تھے۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے