مہر خبررساں ایجنسی – صوبائی ڈیسک: ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ راہِ خدمت میں شہید ہوئے، ان کا نام راہِ انقلاب کے شہداء کی فہرست میں ثبت ہوا۔
رئیسی نہ صرف ایک اعلیٰ عہدے دار تھے بلکہ حقیقی ولایت پذیری کا نمونہ تھے۔ وہ شخص جو انقلاب اسلامی کے پہلے ایام سے بغیر کسی ڈگمگاہٹ کے امام اور رہبر کے ساتھ کھڑا رہا اور زندگی کے آخری لمحات تک اسی راستے پر قائم رہا۔
اقتدار کے پیچ و خم میں راستہ بدلنے والے بہت سوں کے برعکس، وہ انقلاب کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم رہے۔
شہید رئیسی علمدار خدمت ہیں
اہل سنت مولوی شمس الحق دامنی نے مہر نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شہید آیت اللہ ابراہیم رئیسی صحیح معنوں میں شہید خدمت تھے، جنہیں علمدار خدمت کہا جا سکتا ہے جنہوں نے عوام بالخصوص پسماندہ لوگوں کی خدمت کی۔
ایران شہر کی مسجد محمد رسول اللہ ص کے اہل سنت امام جمعہ نے کہا: شہید رئیسی نے عوام اور محروموں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی، سیستان اور بلوچستان کے عوام کو ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔ یہاں تک کہ انتخابات میں اس صوبے کے عوام کی اکثریت، شیعہ اور سنی دونوں نے انہیں ووٹ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید رئیسی نے اپنی مختصر مدت صدارت کے دوران صوبہ سیستان و بلوچستان کا تین بار دورہ کیا اور صوبے کے مسائل اور مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کی۔
مولوی دامنی نے مزید کہا کہ سیستان و بلوچستان کے لوگوں کو ان سے خاص انسیت پیدا ہوگئی ہے، اس وقت اگر صوبے میں ترقیاتی سکیموں یا منصوبوں کا افتتاح ہوتا ہے تو یہ ان کی حکومت میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک بار شہید رئیسی سے ملاقات کی جب وہ عدلیہ کے سربراہ تھے،میں نے انہیں ایک شائستہ، سادہ زیست اور بے تکلف شخص پایا، اس میٹنگ میں موجود ہر شخص انہیں اپنے بہت قریب محسوس کرتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید رئیسی ایک وفادار انسان اور دین مبین اسلام کا مظہر تھے۔
ایک بہادر پیرو ولایت کہ جو رہبر سے متعلق اپنے موقف پر قائم رہے
مولوی عبدالرحمن ترنج زر نے مہر نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ پہلی بار تھا کہ لوگوں نے صدر کو سیلاب کے دوران عوام کے متاثرین کے درمیان پایا۔
چابہار کی زین العابدین مسجد کے اہل سنت امام جمعہ نے کہا کہ صوبہ سیستان و بلوچستان میں، ان کی پیروی اور ترجیحات کی وجہ سے، متعدد ناکارہ کارخانے اور صنعتی یونٹس کو بحال کیا گیا اور ساتھ ہی کئی نئے اسپتال بھی بنائے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سبسڈی میں اضافہ اور خاص طور پر معاشرے کے محروم افراد کے لیے فوڈ اسٹامپ مختص کرنا ایک بہت بڑا قدم تھا۔
مولوی ترنج زر نے کہا کہ شہید رئیسی کے قابل فخر کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن کو اقوام متحدہ میں اٹھا کر دنیا کو دکھا دیا کہ یہ قرآن جلانے سے فنا نہیں ہوگا۔ اس طرح کے کام کے لیے واقعی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، جو بہت سے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب کے آغاز سے، ایسے لوگ موجود ہیں جو کبھی رہبر انقلاب کے ساتھ تھے لیکن ایسے دن بھی آئے ہیں جب وہ ان کے اور نظام کے خلاف دشمن کی صف میں جا کھڑے ہوئے، لیکن شہید رئیسی انقلاب کے آغاز سے لے کر شہادت تک اپنے موقف پر قائم رہے اور رہبر معظم کے ایک سچے سپاہی تھے۔
مولوی ترنج زر نے کہا کہ موت ہر ایک کے لیے مقدر ہے، لیکن شہادت سے بہتر موت اور کیا ہو سکتی ہے؟ زہے نصیب کہ صدر رئیسی بستر علالت میں نہیں بلکہ قوم کی خدمت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔