مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شیخ نعیم قاسم نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اپنی سرگرمیوں اور تنظیم کی تاریخ میں ایک مشکل ترین ذمہ داری سنبھالی ہے۔ یہ ایک بھاری اور عظیم ذمہ داری ہے جو شیخ نعیم قاسم کے کندھوں پر آن پڑی۔
سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے میں جو بہت بڑا خلا پیدا ہوا تھا اس کے پیش نظر انہوں نے جنگ کے دوران اس مشن کو آگے بڑھایا۔ شیخ نعیم قاسم اپنے عہد کے پابند رہے اور اس ذمے داری کو نہایت ہمت اور تدبر سے نبھایا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹر وردہ سعد نے حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے رکن علی جابر کے ساتھ لبنانی مزاحمتی قیادت کی سطح پر اس غیر معمولی شخصیت کے بارے میں گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر کی جا رہی ہیں:
مہر نیوز: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کئی دہائیوں تک مزاحمت اور جہاد تبیین میں حصہ لینے کے باوجود بہت سے لوگوں کے لیے نامعلوم ہیں اور ان کے مزاحمتی کردار کے بہت سے پہلووں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، شیخ نعیم قاسم سے آپ کی قربت کے پیش نظر، کیا آپ ان خوابیدہ پہلووں پر روشنی ڈالنا چاہیں گے؟
علی جابر: شیخ نعیم قاسم کو بہت سے لوگ جانتے ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کافی شناخت نہیں رکھتے۔ وہ حزب اللہ کے ظہور سے پہلے لبنان میں اسلامی ایکشن موومنٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں، جو تحریک محرومین کے بطن سے پیدا ہوئی تھی اور امام سید موسیٰ صدر نے بنیاد رکھی تھی۔
شیخ نعیم قاسم نے جوانوں کے ایک گروہ کے ساتھ اس تحریک کے قیام میں حصہ لیا اور اس وقت وہ نظریاتی اور ثقافتی دفتر کے انچارج اور تحریک محرومین کی قیادت کے دفتر کے رکن تھے۔
تحریک محرومین کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح وہ 1982 میں لبنان پر صیہونی حکومت کے حملے اور حزب اللہ کے قیام تک دوسرے فریم ورک میں سرگرم رہے۔
بلاشبہ انہوں نے اس دوران بہت سے موئثر اقدامات اٹھائے تھے جن میں ثقافتی اور مذہبی مجالس کا قیام بھی شامل تھا، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، اور ساتھ ہی دیگر بھائیوں کے ساتھ مل کر لبنان میں مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے مذہبی تعلیمی ایسوسی ایشن قائم کی، جو بعد میں پورے لبنان میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا سلسلہ بن گئی۔ ہائی اسکول کے کیمسٹری کے استاد کی حیثیت سے نعیم قاسم کی علمی شخصیت اور اس سلسلے میں حاصل مراعات بھی ان کے لئے مددگار ثابت ہوئیں۔
مہر نیوز: شیخ نعیم قاسم اپنے آپ کو مدرسہ کے امور اور دینی تبلیغ کے لیے پوری طرح وقف کرنے سے پہلے درس و تدریس میں مصروف تھے اور ان کی مہارت خالصتاً سائنسی میدان میں تھی،ان کی شخصیت میں اس سائنسی جہت کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں، اور اس کے سماجی اور سیاسی امور میں ان کے طرز فکر اور نقطہ نظر پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
واضح ہے کہ شیخ نعیم قاسم نے عصری تعلیم کو حوزوی تعلیم کے ساتھ جوڑ دیا اور بعد میں خود کو اس میدان کے لئے وقف کر دیا اور ایک عالم دین بن کر اس میدان میں سرگرم عمل رہے۔
مذہبی اور سائنسی شخصیت کے امتزاج نے بلاشبہ ایک طرف شیخ نعیم قاسم کی قابلیت اور دوسری طرف ان کے فکری طریقہ کار کو متاثر کیا۔ تاکہ وہ سماجی، سیاسی، مذہبی اور فکری معاملات کو سنجیدگی اور قابل ذکر سائنسی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھا سکیں۔ اس کے علاوہ وہ ہمیشہ دو عظیم انسانوں، شہید سید محمد باقر صدر اور امام خمینی رح اور نظام ولایت فقیہ سے متاثر رہے۔
مہر نیوز: درس و تدریس کا پیشہ ان فرائض میں سے ایک ہے جو انبیاء اور صالحین کے ذمے تھا، اور یہ قرآن کریم کا مرکزی پیغام ہے، جو لوگوں کو حکمت سکھانے اور نجات کا راستہ بتانے کے لیے نازل ہوا تھا۔ شیخ نعیم قاسم نے اس مشن کو کیسے آگے بڑھایا اور تدریسی پیشے میں ان کی کارکردگی کیا رہی؟ شیخ نعیم قاسم تدریسی پیشے اور ملت اسلامیہ کی نجات اور ایک مضبوط اور پرعزم مومن شخصیت کی تعمیر میں اس کی اہمیت کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟
شیخ نعیم قاسم ایک معلم اور استاد تھے جنہوں نے 1970 کی دہائی کے آخر اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں نوجوان نسل پر گہرا اثر ڈالا۔
ان کے اسباق اور حلقے عام لوگوں خصوصاً پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے بہت پرکشش تھے اور انھوں نے اس کردار پر بھرپور توجہ دی اور اسے اگلے مراحل کی بنیاد سمجھا۔ کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ شعوری مذہبی ثقافت کا پھیلاؤ اور وفادار نوجوانوں کی تربیت ہی وہ ستون ہے جس پر مزاحمت کی بنیاد قائم ہے۔ ایسا ہی ہوا اور اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے بہت سے ارکان اور بعض رہنما شیخ نعیم قاسم کے تربیت یافتہ تھے اور وہیں سے جہادی اور مزاحمتی سرگرمیوں میں شامل ہوئے۔
مہر نیوز: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے شیخ نعیم قاسم قومی اور علاقائی تعلقات کے نظم و نسق کے سب سے نمایاں قائدین اور بانیوں میں سے ایک تھے۔ شیخ نعیم قاسم کو تفویض کردہ اس کردار کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے، اور اس میدان میں ان کا سب سے اہم کارنامہ کیا رہا ہے؟
حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے شیخ نعیم قاسم پارلیمانی اور پھر وزارتی سیاسی امور اور لبنان اور بیرون ملک اسلامی اور قومی تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ تعلقات کے ذمہ دار تھے۔
انہوں نے ان امور کو اس قدر مستعدی اور شائستگی سے چلایا کہ شہید مزاحمت سید حسن نصر اللہ خاص طور پر حساس حالات اور انتخابات اور اتحادوں کی تشکیل جیسے اہم واقعات میں ان پر مکمل بھروسہ کرتے تھے۔
وہ شہید سید حسن نصر اللہ کی مشاورت سے لبنان کے اندر مستحکم اور مضبوط تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور ملک کی تمام جماعتوں کے ساتھ حزب اللہ کے رابطے کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے، چونکہ لبنان فرقہ وارانہ، مذہبی اور فکری لحاظ سے اعلیٰ تنوع کا حامل ملک ہے۔
مہر نیوز: بہت سے لوگ شیخ نعیم قاسم کی شخصیت اور ان کی خصوصیات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی رائے کے احترام اور تمام سیاسی اور فکری تحریکوں کے لیے کھلے پن پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل ثقافتی پس منظر اور سیاسی قوتوں اور فقہی مکاتب کی وسیع شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کی رائے میں شیخ نعیم قاسم کا دوسروں کے ساتھ ذاتی تعلق اور برتاو کیسا تھا اور کیا اس سے دوسروں کے ساتھ رابطہ بڑھانے میں مدد ملتی ہے؟
مجھے یقین ہے کہ شیخ نعیم قاسم، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنے موجودہ عہدے پر، دوسروں کے ساتھ بات چیت کا دائرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر چونکہ لبنان کے مسائل صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں اور تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے۔
شیخ نعیم قاسم تمام سیاسی اور فکری دھاروں میں بہت مشہور ہیں اور ہر کوئی انہیں خوب جانتا ہے اور ان کی فراست سے بھی واقف ہے۔
شیخ نعیم قاسم گفتگو کے قائل شخصیت ہیں جو بیان کی طاقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اگر کلام مخلصانہ ہو اور غیر ملکی منصوبوں پر انحصار نہ کرے تو اس سے بہت سے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
شہید سید حسن نصر اللہ کے ساتھ شیخ نعیم قاسم کا رشتہ بہت گہرا تھا اور اب شیخ نعیم قاسم انتہائی حساس مرحلے پر ہیں، ایک طرف شہید سید حسن نصر اللہ کے راستے اور میراث کی حفاظت کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ترقی اور تعمیر نو کا مسئلہ درپیش ہے۔ آپ کی رائے میں شیخ نعیم قاسم اس مرحلے کے قیادت کیسے کریں گے اور اس جہادی تحریک کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
میرے خیال میں جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا شیخ نعیم قاسم اور شہید سید حسن نصر اللہ کے درمیان خصوصی، قریبی اور روحانی تعلق مزید واضح ہوتا جائے گا۔ وہ تعلقات جو کئی دہائیوں تک مکمل ہم آہنگی، بنیادی نظریات کے اتحاد، اہداف کے تعین اور لبنان اور مزاحمتی حلقے اور امت اسلامیہ بالخصوص فلسطین کے مسائل کے دفاع کے لیے جدوجہد کے ساتھ جاری رہے۔ یقیناً شیخ نعیم قاسم چونکہ اس امانت کی قدر جانتے ہیں، اس راستے پر ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ چلتے رہیں گے اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ ہمت، بہادری اور حکمت کے ساتھ کریں گے۔ جس طرح وہ اس سے پہلے شہید سید حسن نصراللہ، شہید سید ہاشم صفی الدین اور تمام قائدین کے ساتھ اس راہ پر ثابت قدم تھے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ شیخ نعیم قاسم کی قیادت میں لبنان اور حزب کا مستقبل نہایت شاندار اور تابناک ہوگا۔