مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، صہیونی حکومت حماس کے پاس یرغمال امریکی شہری کی رہائی کے سلسلے میں ہونے والے مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکہ سے خفا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکہ نے حماس کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر اسرائیل کو اعتماد میں نہیں لیا جو صہیونی حکام کی شدید ناراضگی کا سبب بنا۔
امریکی ویب سائٹ آکسیوس نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس سے عیدان الیگزینڈر نامی صہیونی-امریکی قیدی کی رہائی کے لیے خفیہ مذاکرات کیے، لیکن اس بارے میں اسرائیلی حکومت کو کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق، تل ابیب کو اس خفیہ پیش رفت کا علم صرف اپنی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ذریعے ہوا جبکہ وائٹ ہاؤس نے اسرائیلی قیادت کو باضابطہ طور پر ان مذاکرات سے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔
اسرائیلی حکام نے امریکہ کے اس یکطرفہ اقدام پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ مذاکرات اسرائیلی شمولیت یا اطلاع کے بغیر انجام پائے۔
اسرائیلی وزیر برائے امورِ اسٹریٹجک اور وزیراعظم نتن یاہو کے قریبی مشیر رون دیرمر نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے امور اسرا ایڈم بوہلر سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس رویے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
ایڈم بوہلر نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے نمائندوں سے بات چیت کی، جس میں نہ صرف عیدان الیگزینڈر بلکہ دیگر امریکی قیدیوں کی رہائی، طویل المدت جنگ بندی اور حماس رہنماؤں کے غزہ سے انخلا کے محفوظ راستے جیسے امور بھی زیر بحث آئے۔
اسرائیلی حکومت نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ ایسے یکطرفہ اقدامات نہ صرف قیدیوں کی رہائی کے لیے مشترکہ کوششوں کو کمزور کرسکتے ہیں بلکہ خطے کی سیکیورٹی پر بھی منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔
یہ اس بات کا مظہر ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان مشرق وسطی کی پالیسی اور مقاومتی محاذ سے نمٹنے کے طریقہ کار پر اختلافات میں اضافہ ہورہا ہے۔