11 ذی القعدہ، یوم ولادت امام رضا علیہ السلام، مشہد سمیت ایران بھر میں جشن

11 ذی القعدہ، یوم ولادت امام رضا علیہ السلام، مشہد سمیت ایران بھر میں جشن

مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: 11 ذی القعدہ کو آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے تھے۔ آپ نے اپنے والد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد امامت سنبھالی۔ امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر دنیا بھر سے مسلمان ایران میں واقع ان کے مقدس روضے کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی

حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ میں 11 ذوالقعدہ 148 ہجری کو ہوئی۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آپ کا نام "علی” رکھا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا کے اظہار کے طور پر آپ کو "رضا” کا لقب عطا ہوا، اور آپ کی کنیت "ابوالحسن” تھی۔

آپ کی امامت کا دور 183 ہجری میں اس وقت شروع ہوا جب آپ کی عمر 35 برس تھی، اور آپ نے تقریباً 20 برس تک یہ الٰہی منصب سنبھالا۔ آپ کے دور امامت میں تین عباسی خلفاء کا زمانہ شامل ہے۔ پہلے دس برس ہارون الرشید، پھر پانچ برس امین، اور آخری پانچ برس مامون الرشید۔

جب امام رضا علیہ السلام نے امامت سنبھالی تو اس وقت سیاسی حکومت بغداد میں ہارون الرشید کے ہاتھ میں تھی۔ ہارون کی حکومت ظلم و جبر پر مبنی تھی، جس کے باعث وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت کمزور ہونے لگی اور مختلف مقامات پر بغاوت ہونے لگی۔ اس موقع پر امام رضا علیہ السلام نے مدینہ میں اپنے منصب امامت کا اعلان کیا اور عوام کے دینی و سماجی مسائل کے حل میں بھرپور کردار ادا کیا۔

امام رضا علیہ السلام کی زندگی اور امامت کا دور وہ زمانہ تھا جب اہل بیت علیہم السلام کی طرف لوگوں کا رجحان اپنی بلندی پر تھا، اور ان کی عوامی حمایت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا تھا۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایران آمد

حضرت امام رضا علیہ السلام کی امامت کا دور بیس سال پر مشتمل تھا، جس میں سے سترہ سال آپ نے مدینہ منورہ میں گزارے اور آخری تین سال ایران کے علاقے خراسان میں بسر کیے۔ ہارون الرشید کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مامون تخت خلافت پر بیٹھا۔

اس دور کے شیعہ امام رضا علیہ السلام کو اپنا الٰہی امام اور خلیفہ مانتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ عباسی خلیفہ مامون جانتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی جانشین سمجھا جاتا ہے لہذا ان سے خائف تھا۔ اسی خوف کے تحت مامون نے امام رضا علیہ السلام کو مرو بلانے کا فیصلہ کیا تاکہ ظاہری دوستی کا تاثر دے سکے اور یہ ظاہر کرے کہ اس کی حکومت کو امام علیہ السلام کی تائید حاصل ہے۔

ابتدائی طور پر امام رضا علیہ السلام نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا۔ لیکن جب مامون کی دعوت دھمکی میں بدل گئی، تو امام کو 200 ہجری میں مجبوراً خراسان کی طرف روانہ ہونا پڑا۔ امام نے یہ سفر خونریزی سے بچنے کے لیے اختیار کیا، تاکہ شیعوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ آپ نے اس جبر سے بھرے سفر پر واضح ناراضگی کا اظہار کیا۔

جب امام رضا علیہ السلام نے محسوس کیا کہ اب سفر ناگزیر ہے، تو آپ نے بار بار مسجد نبوی میں حاضری دی اور اس انداز میں زیارت کی کہ ہر شخص سمجھ گیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کی مرضی کے خلاف ہے۔ اس کے بعد امام نے اپنے تمام قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو جمع کر کے فرمایا: میرے لیے روؤ، کیونکہ میں مدینہ واپس نہیں آؤں گا۔ یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ امام مامون کی شیطانی سازش سے بخوبی آگاہ تھے، لیکن حالات کے جبر کے سبب اس دعوت کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔

جب امام رضا علیہ السلام بالآخر مرو پہنچے، جو اس وقت مامون کا دارالخلافہ تھا، تو مامون خود اور کچھ ممتاز عباسی عمائدین نے آپ کا استقبال کیا۔

مامون اور امام رضا علیہ السلام

ابتداء میں مامون نے امام رضا علیہ السلام کو خلافت کی پیشکش کی، لیکن امام نے اس پیشکش کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ رد کر دیا اور فرمایا: اگر خلافت تمہارا حق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس مقام کے لیے منتخب کیا ہے، تو تمہیں یہ اختیار نہیں کہ اسے کسی اور کو سونپو۔ تم اللہ کی طرف سے عطا کردہ منصب سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ اور اگر خلافت تمہارا حق نہیں، تو تمہیں یہ اختیار بھی نہیں کہ کسی ایسی چیز کی پیشکش کرو جو تمہاری ملکیت ہی نہیں۔

مامون نے جب خلافت کی پیشکش میں ناکامی دیکھی تو اس نے امام کو ولی عہد بنانے کی تجویز دی۔ امام علیہ السلام نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا، لیکن آخر کار شدید دباؤ کے تحت امام کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تاہم اس سے پہلے امام نے چند شرائط رکھیں جن میں یہ شامل تھا کہ وہ حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گورنر یا عہدیدار کی تقرری یا برطرفی میں حصہ لیں گے۔ یہ شرائط اس بات کا کھلا ثبوت تھیں کہ امام رضا علیہ السلام مامون کی حکومت کو شرعی یا قانونی حیثیت نہیں دیتے تھے اور کسی سرکاری ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے تھے۔

امام رضا علیہ السلام کی شہادت

جب مامون کی تمام چالیں ناکام ہو گئیں اور اس نے دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے اور لوگ ان سے شدید محبت کرنے لگے ہیں، تو اس نے امام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔ مامون نے انگور یا انار کے ذریعے امام کو زہر دیا، جس کے نتیجے میں 203 ہجری میں امام رضا علیہ السلام نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

آپ کو طوس یعنی موجودہ مشہد، ایران میں دفن کیا گیا۔ امام علیہ السلام کا عظیم روضہ آج بھی وہیں موجود ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے فرزند، حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام نے اپنے والد کے جسدِ مبارک کو غسل دیا اور نماز جنازہ پڑھائی، لیکن یہ عمل خفیہ طور پر انجام دیا گیا۔ امام کا جسدِ اقدس مشہد میں آپ کے پیروکاروں اور محبّین کی موجودگی میں دفن کیا گیا، اور صدیوں سے آپ کا روضہ ایرانیوں کے لیے برکت و عظمت کا باعث ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا روضہ مبارک ایران کا سب سے بڑا، اہم اور نمایاں مذہبی مرکز ہے جو ایرانی-اسلامی طرزِ تعمیر کی بہترین مثال ہے۔ ہر سال ایران اور دنیا بھر سے لاکھوں زائرین امام کے روضے کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔

امام رضا علیہ السلام کے روضہ کا احاطہ عظیم الشان عمارتوں کا مجموعہ ہے جس میں خود روضہ مبارک، صحن، ایوانات (برآمدے)، ایک عجائب گھر، ایک عظیم کتب خانہ، چار مدارس دینیہ، ایک قبرستان، رضوی یونیورسٹی برائے علوم اسلامی، زائرین کے لیے وسیع دستر خوان، وسیع نماز ہال اور کئی دیگر عمارات شامل ہیں۔

مسجد گوہرشاد تیموری دور میں تعمیر کی گئی ایک عظیم الشان جامع مسجد ہے جو اب روضہ امام رضا علیہ السلام کے احاطے میں واقع ایک مرکزی مصلا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

یہ مسجد مشہد کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے، اور اپنی دلکش فنِ تعمیر کی بدولت یہ ایران کے اہم ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مقامات میں شمار ہوتی ہے۔

ایرانی فن آئینہ کاری اور روضہ امام رضا علیہ السلام

آئینہ کاری ایرانی فن کا ایک خوبصورت حصہ ہے اور یہ فنِ تعمیر کی تزئین و آرائش کا ایک ذیلی شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس فن کی تاریخ ایران میں صفوی دور سے شروع ہوتی ہے اور قاجار دور میں یہ فن اپنے عروج پر پہنچا۔ اسی وجہ سے امام رضا علیہ السلام کے روضے کی موجودگی نے مشہد کو آئینہ کاری کے بڑے مراکز میں شامل کردیا۔

روضہ امام رضا علیہ السلام میں کئی مقامات اور ایوانات ایسے ہیں جو رنگا رنگ اور نفیس آئینوں سے مزین ہیں، جو روضے کی زیارت کے لئے آنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے