سبق جو عمر بھر ساتھ رہے، میرے استادوں کے انمول نقوش…عمران اے ایم خان

میرے استادوں نے جو نقوش میری زندگی پر چھوڑے، وہ محض تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ شخصیت سازی کا حصہ بن گئے۔ ان کی دی ہوئی سادہ مثالیں، گہری نصیحتیں اور روزمرہ کے تجربات آج بھی میری سوچ میں زندہ ہیں۔ تیسری جماعت میں ہمارے اسکول کے پرنسپل نے زمین کے اندر کوئلہ بننے کا عمل اتنے دلچسپ اور سادہ انداز میں سمجھایا تھا کہ وہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے، حالانکہ اس عمر میں اتنی پیچیدہ معلومات کو یاد رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
آٹھویں جماعت میں ہندی کے ایک استاد نے بزرگوں کی عزت کا سبق دیتے ہوئے کہا تھا، ’’بچو! چاہے تم صحیح ہی کیوں نہ ہو، بڑوں کی بات نہ کاٹو۔ اگر اپنی بات رکھنی بھی ہو تو انکساری سے یوں کہنا، ’’مجھے تو یہی معلوم ہے یا استاد نے ایسا ہی پڑھایا ہے لیکن آپ کہتے ہیں تو آپ ہی صحیح ہوں گے۔‘‘ یہ جملہ عمر بھر کے لیے میرے دل و دماغ میں عاجزی اور ادب کا چراغ بن گیا۔