ہندوستان میں مقیم 6 پاکستانی فی الحال نہیں جائیں گے وطن واپس، سپریم کورٹ نے دی راحت

ہندوستان میں مقیم 6 پاکستانی فی الحال نہیں جائیں گے وطن واپس، سپریم کورٹ نے دی راحت

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جب تک سرکاری افسران کی طرف سے مناسب فیصلہ نہیں لیا جاتا، تب تک پاکستانی کنبہ کے خلاف سزا کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہندوستان میں مقیم پاکستانی شہری کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس درمیان بنگلورو میں رہنے والے ایک پاکستانی شخص نے اپنے اور اپنے کنبہ کے اراکین کو پاکستان بھیجے جانے پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس عرضی پر آج عدالت عظمیٰ نے سماعت کی۔ اس کنبہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں اور ان کے پاس ہندوستانی پاسپورٹ و آدھار کارڈ بھی موجود ہیں۔ وکیل اور عرضی دہندہ کی دلیلیں سننے کے بعد جسٹس سوریہ کانت کی قیادت والی بنچ نے سرکاری افسران کو ہدایت دی کہ وہ اس کنبہ کے اراکین کی ہندوستانی شہریت کے جواز کا پتہ کریں۔ اس کے لیے وہ دستاویزات کی گہرائی سے جانچ کریں۔

عدالت نے آج ہوئی سماعت کے بعد حکم دیا کہ جب تک سرکاری افسران کی طرف سے مناسب فیصلہ نہیں لیا جاتا، تب تک اس کنبہ کے خلاف سزا کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بنچ نے عرضی دہندہ کو جموں، کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی آزادی بھی دی، اگر وہ حکومت کے فیصلے سے مطمئن ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ موجودہ عرضی میں عرضی دہندہ 2 اور 3 شوہر-بیوی ہیں۔ عرضی دہندہ 1، 4، 5 اور 6 ان کے بچے ہیں۔ وہ موجودہ وقت میں سری نگر کے باشندہ ہیں۔ سرکاری ہدایت کے مطابق ویزا رد کر دیے گئے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ریزرو ہیں، ایسے میں عرضی دہندگان کو ملک بدر کرنے کے لیے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ملک بدر کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ عرضی دہندہ اپنے حق میں جاری کیے گئے آفیشیل دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں۔ ایسے میں مدلل دلائل کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہم افسران کو ان دستاویزات اور ان کی توجہ میں لائی جانے والی کسی بھی دیگر دلیل کو سرٹیفائی کرنے کی ہدایت دینے کے ساتھ عرضی کی اہلیت پر کچھ بھی کہے بغیر اسے ختم کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں جلد از جلد فیصلہ لیا جائے۔ ہم کوئی مدت کار مقرر نہیں کر رہے ہیں۔ اس معاملے کے خصوصی دلائل کو دیکھتے ہوئے مناسب فیصلہ لیے جانے تک افسران عرضی دہندگان کے خلاف کوئی بھی سخت کارروائی نہ کریں۔ اگر عرضی دہندہ حتمی فیصلہ سے مطمئن نہیں ہے تو وہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سامنے عرضی داخل کر سکتا ہے۔ اس حکم کو مثال نہیں مانا جائے گا، کیونکہ یہ اس معاملے کے خصوسی دلائل اور حالات کے مطابق ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے