چین، نئی دہلی کے لیے ڈراؤنا خواب؛ بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ کے امکانات کم ہیں

چین، نئی دہلی کے لیے ڈراؤنا خواب؛ بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ کے امکانات کم ہیں

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ جنوبی ایشیا کی جانب مبذول کرادی ہے۔ دونوں ممالک کی کشیدگیوں اور تنازعات سے بھری تاریخ رکھتے ہیں۔ آج دونوں ممالک نئے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جو نہ صرف دوطرفہ تعلقات پر اثر انداز ہورہے ہیں بلکہ پورے خطے کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ جو طویل عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازع کی حیثیت رکھتا ہے، موجودہ حالات میں ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی بحران میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بھارت کی امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی فوجی اور اقتصادی قربت، اندرونی تناؤ اور دہشت گرد حملوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔

ان عوامل کے پیش نظر ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا اور چین اور امریکہ جیسی عالمی طاقتیں اس تنازع میں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔

اسی تناظر میں مہرنیوز کے شعبہ ترکی نے ترکی سے تعلق رکھنے والے بھارت کے سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر "داملا چاٖغلا بایرام” سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں انہوں نے کشمیر مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجوہات، دہشت گرد کے حملوں کے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر اثرات اور ممکنہ جنگ کے خطرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

ذیل میں ڈاکٹر داملا چاغلا بایرام کے انٹرویو کا متن پیش کیا جارہا ہے:

مہر نیوز: کشمیر کا مسئلہ کیوں تاحال حل نہیں ہوا؟ ماہرین کی نظر میں پانی اور کشمیر کے مسئلے پر بڑھتے ہوئے اختلافات مستقبل میں ایک بڑے تصادم کا باعث بن سکتے ہیں؛ آپ کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر داملا چاغلا بایرام: مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں اس خطے پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں، اور کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ یہ مسئلہ گویا ایک دائمی بیماری بن چکا ہے۔ جب دونوں طرف حقائق موجود ہوں، تو کسی متفقہ حل تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زیادہ امکان یہی ہے کہ موجودہ حالت مستقبل میں بھی باقی رہے گی۔ اس وقت بھی اگرچہ چھوٹے پیمانے پر سفارتی کشیدگی اور محدود جھڑپیں جاری ہیں، لیکن بڑے پیمانے کی جنگ کا امکان فی الوقت کم ہے۔ تاہم بھارت کی طرف سے ٹارگیٹڈ اور محدود جوابی کارروائی خارج از امکان نہیں، جیسا کہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد ہوا۔ لیکن ان اقدامات پر فوری عمل درآمد کا امکان کم ہے اور یہ ابھی منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں۔

جب بھی کشمیر کا ذکر ہوتا ہے، پانی کا مسئلہ خصوصاً دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاملہ بھی ساتھ آتا ہے۔ بھارت، جو دریائے سندھ کے پانی کا منبع ہے، گزشتہ برسوں میں کئی ڈیم تعمیر کر چکا ہے اور اپنی پالیسیوں کے ذریعے پانی کے بہاؤ میں ایسی تبدیلیاں لایا ہے جس پر پاکستان کو سخت اعتراض ہے۔ یہ مسئلہ بھی مسئلہ کشمیر کی طرح ایک حل طلب معاملہ ہے اور مستقبل میں دونوں بحران ایک دوسرے کو مزید شدت دے سکتے ہیں۔

اگرچہ 1965 اور 1971 میں اعلانیہ جنگیں اور کارگل جیسی جھڑپیں ہوچکی ہیں، اس کے باوجود "شملہ معاہدہ” اب بھی دونوں ممالک کے درمیان لاگو ہے۔ تاہم عوام کی اکثریت کو اس معاہدے کی تفصیلات کا علم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے میں کسی بھی فریق کو یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اس لیے بھارت کا یہ دعوی کہ وہ شملہ معاہدہ معطل کرسکتا ہے، قانونی جواز نہیں رکھتا۔ اگر پاکستان اس معاملے کو بین الاقوامی عدالت میں لے جائے، تو بھارت کی خلاف ورزی ثابت کی جاسکتی ہے۔ شملہ معاہدے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری اور سرحدی سالمیت کا احترام کریں گے اور تمام مسائل کو پرامن طریقے سے حل کریں گے۔

یہ بھی واضح رہے کہ پانی کا مسئلہ صرف بھارت اور پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ اس میں چین اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ بھارت کی جانب سے سندھ کے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چین کے لیے بھی جواز فراہم کرتا ہے کہ وہ تبت سے نکلنے والے دریاؤں جیسے برہمپترا اور میکانگ کو کنٹرول کرے۔ کسی ملک کے پانی کو بند کرنا جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے۔ بھارت پاکستان میں جاری ہونے والے پانی کا محدود حصہ روک سکتا ہے لیکن بھارت کو اگر ایسا کرنا ہے تو بڑے ڈیم تعمیر کرنے ہوں گے، جس کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہوگی۔

اگر بھارت واقعی ایسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرتا ہے جو دوسرے ملک کو پانی سے محروم کرے، تو وہ خطے میں ایک جارح اور منفی کردار کے طور پر ابھرے گا۔ مزید یہ کہ کشمیر کا معاملہ صرف بھارت اور پاکستان تک محدود نہیں بلکہ چین بھی اس میں فریق ہے، کیونکہ کشمیر کے کچھ حصے چین کے زیر انتظام ہیں۔ چین جو اعتدال پسند پالیسی کا خواہاں ہے، اس معاملے میں زیادہ تر اپنی پاکستان کے ساتھ شراکت اور چین-پاک اقتصادی راہداری کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ بھارت و پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا بحران اس راہداری کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

مہر نیوز: امریکی نائب صدر نے 21 اپریل کو بھارت کا دورہ کیا؛ کیا ان کے سفر اور کشمیر میں دہشت گرد حملے کے درمیان کوئی رابطہ ہے؟

ڈاکٹر داملا چاغلا بایرام: امریکی نائب صدر نے 21 اپریل کو بھارت کا سرکاری دورہ کیا اور اسی وقت کشمیر میں دہشت گرد حملہ ہوا۔ دونوں واقعات کا بیک وقت پیش آنا ایک اہم علامت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ حملے کے وقت امریکی نائب صدر اور بھارتی وزیر اعظم بھی بین الاقوامی سطح پر سرگرمِ عمل تھے۔ ایک جانب بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی و دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہا تھا، اور دوسری جانب وہ خلیج فارس کے خطے میں اپنے کلیدی شراکت دار سعودی عرب، کے ساتھ اقتصادی روابط کو فروغ دینے پر بھی کام کررہا تھا۔

ایسے میں یہ حملہ بھارت کو یہ یاد دلانے کی کوشش ہوسکتی ہے کہ اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو عدم استحکام پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک پیغام بھی ہوسکتا ہے ان غیر ملکی طاقتوں کے لیے جو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھارہی ہیں۔ یہ حملہ بھارت کی انٹیلیجنس ناکامی بھی تھی۔ اگرچہ بھارتی سیکیورٹی اداروں کو اس گروہ کی موجودگی کا علم تھا اور انہیں گھیرنے کی کوششیں جاری تھیں، لیکن انٹیلیجنس کا میدان ہمیشہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ بھارت نے یہ پیش‌بینی نہیں کی کہ ایسے وقت میں جب ایک اعلی امریکی عہدیدار ملک میں موجود ہو، دہشت گرد عناصر اس موقع کو استعمال کرکے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بناسکتے ہیں اور یوں کشمیر میں حالات معمول پر ہونے کا تاثر ختم ہوسکتا ہے۔
مہر نیوز: دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اسی طرح بھارت برکس کے بانی اراکین میں سے ایک ہے اور پاکستان بھی اس کا رکن بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں جبکہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات بھی وسیع ہورہے ہیں؛ بھارت کی دفاعی طاقت روس ہے۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا دونوں ملکوں کے درمیان جنگ یوریشیا اور مغربی ایشیا کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے؟

ڈاکٹر داملا چاغلا بایرام: یقینا جنگ سے یورپیشیا کا استحکام متاثر ہوگا لیکن اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت کسی بھی طور پر جنگ نہیں چاہتا۔ بھارت چین اور پاکستان سے جنگ کا تجربہ رکھتا ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ موجودہ حالت میں پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہئے اسی طرح بھارت یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ امریکہ پر مکمل طور پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور چین کے ساتھ کشیدگی کو ہوا نہیں دینا چاہئے۔ حالات کسی حد تک مختلف ہیں۔ چین اس وقت پاکستان کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری کررہا ہے اور روس کے ساتھ تعلقات بھی بڑھا رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے جنگ شروع ہونے کی صورت میں چین خاموش نہیں بیٹھے گا اور یہی بھارت کے لئے ڈراؤنا خواب ہے اسی لئے نئی دہلی نے اپنے اندازے لگائے ہیں۔ امریکہ اس وقت بھارت کی حمایت کررہا ہے لیکن بھارت امریکہ پر کسی بھی صورت میں مکمل اعتماد نہیں کرے گا اور بھارت خود کو اس پوزیشن میں لاکھڑا نہیں کرنا چاہتا ہے کہ امریکہ سے وابستہ رہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاک-بھارت جنگ سے چین کو نقصان اور امریکہ کو فائدہ ہوگا، تاہم مجھے اس تجزیے سے مکمل اتفاق نہیں۔ اس جنگ سے پاکستان اور چین کو نقصان ہوگا لیکن یہ جنگ بھارت کو بھی کمزور کردے گی۔ امریکہ اس وقت ایک طاقتور بھارت کا خواہاں ہے۔ امریکی مفادات اس میں ہیں کہ خطے میں استحکام ہو اور ہر قسم کی کشیدگی سے گریز کیا جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین اور بھارت اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں ہیں، اور موجودہ حالات میں کوئی بھی عالمی کھلاڑی جنگ کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگرچہ چین نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے، لیکن یورپ اور روس کی طرف سے کسی فوری ردعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ آخرکار بھارت یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اگر کسی نے جنگ کا آغاز کیا تو وہ پاکستان ہوگا، بھارت نہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ ایسے اقدامات کرے جو مکمل جنگ نہ ہوں بلکہ محدود اور قابلِ کنٹرول تناؤ کی صورت میں رہیں۔ یوں بھارت دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ فی الحال خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے