مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: کسی ملک کے بلدیاتی انتخابات شاید اس ملک یا دیگر ممالک کے کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے ہوں لیکن اس سال لبنان میں ہونے والے انتخابات کو ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ ایک اہم ریفرنڈم تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ انتخابات لبنانی حکومت کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کے دوران ہوئے ہیں۔
یہ انتخابات، ہر چھ سال بعد ہوتے ہیں اور حسب معمول 2022 میں ہونے تھے، لیکن اس وقت لبنان کے حالات کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے تھے۔ انتخابات چار مرحلوں میں ہوئے جو ملک کے صوبہ جبل، شمالی صوبوں اور عکار، بیروت، بقاع اور بعلبک، ہرمل، جنوبی اور نبطیہ میں منعقد ہوئے۔
عکار، طرابلس اور شمالی علاقوں میں، لبنانی انتخابات دیگر جماعتوں جیسے "المستقبل” وغیر کے زیر اثر منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں امل موومنٹ اور حزب اللہ کے علاوہ فری نیشنل موومنٹ، القوات، المردہ، تحریک آزادی، کتائب، جماعت اسلامی اور دیگر آزاد امیدواروں نے حصہ لیا۔
واضح رہے کہ لبنان کے مختلف علاقوں میں ووٹوں کی شائع تفصیلات کے باوجود عرب میڈیا نے مجموعی نتائج کو تفصیل سے بیان نہیں کیا ہے۔
صوبہ جبل
ان انتخابات کا پہلا دور جبل لبنان میں ہوا جس میں جبیل میں 56%، کسروان میں 59%، المتن میں 37%، بعبدا میں 38%، عالیہ میں 41%، اور الشوف میں 44% ووٹ کاسٹ کئے گئے۔
اس خطے میں انتخابی مہم زیادہ تر عیسائی علاقوں پر مرکوز تھی، خاص طور پر جونیہ شہر کہ جہاں فری نیشنل موومنٹ موجود ہے۔ یہ تحریک کئی علاقوں جیسے دیر القمر اور الکحالہ میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
دروز اکثریتی علاقوں عالیہ اور الشویف میں پروگریسو سوشلسٹ پارٹی کے سابق سربراہ ولید جنبلاط اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ طلال ارسلان کے درمیان ہونے والے انتخابی گٹھ جوڑ کے باعث رقابت معمولی رہی۔
الشویفات کے علاقے میں ارسلان جب کہ عالیہ میں جببلاط کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
جبیل کے شیعہ دیہات اور بیروت کے جنوبی علاقوں میں امل تحریک اور حزب اللہ کے حمایت یافتہ امیدوار جیت گئے۔
شمالی علاقے اور عکار
انتخابات کا دوسرا دور شمالی اور عکار صوبوں میں ہوا، انتخابات میں طرابلس کے رہائشیوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر شرکت نہ ہونے کے باوجود نتائج کے اعلان میں دو دن لگ گئے۔ طرابلس سٹی کونسل میں کوئی بھی مسیحی امیدوار جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
بترون، بشری، الکور اور زغرتا جیسے عیسائی باشندوں کی اکثریت حامل اضلاع میں ہے القوات کے حمایت یافتہ امیدوار جیت گئے۔
لبنان کے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں حزب المردہ اور فری نیشنل موومنٹ کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان علاقوں میں شرکت کی شرح 25% سے 49% تک رہی ہے۔
بیروت
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں انتخابات کا تیسرا دور منعقد ہوا۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیروت میں لبنان کے نمائندے فواد مخزومی میدان جیتنے میں کامیاب رہے۔
ان انتخابات میں بیروت کے عوام کی شرکر فیصد 20 رہی۔
"بیروت کے مختلف سیاسی گروپوں کا ایک وسیع اتحاد 11 مسیحی امیدواروں کو سٹی کونسل کے لئے منتخب کرانے میں کامیاب رہا۔
اس اتحاد نے سیاسی اختلاف اور حزب المستقبل کی عدم موجودگی کے باوجود کامیابی حاصل کی۔
جنوبی علاقوں میں مزاحمت کے حامی ووٹروں کا سونامی
لبنان کے جنوبی علاقوں میں تحریک امل اور حزب اللہ کے حمایت یافتہ امیدواروں کی فیصلہ کن فتح نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مزاحمتی تحریک ان علاقوں کے باشندوں کی روزمرہ کی زندگیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
لبنان کے زیادہ تر شیعہ علاقوں میں ٹرن آؤٹ 45 فیصد سے زیادہ بتایا گیا ہے۔ ملکی میڈیا نے دو روز قبل اطلاع دی تھی کہ جنوبی لبنان میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں امل موومنٹ اور حزب اللہ کے اتحاد "ترقی اور وفاداری” کو واضح برتری حاصل رہی۔
حزب اللہ کے کمپین سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق "ترقی اور وفاداری” کی جنوبی لبنان کی کل 272 نشستوں میں سے 102 میں بلا مقابلہ جیت ہوئی۔
اعلان کردہ نتائج درج ذیل ہیں:
1- صور کا علاقہ
"صور” کے حلقے میں کل 39 نشستوں میں "ترقی اور وفاداری” کو واضح برتری ملی
2- شمالی نبطیہ
حلقے میں 40 شہر اور دیہات شامل ہیں جہاں "ترقی اور وفاداری” 16 شہروں میں جیت گئی۔ جن حلقوں میں انتخابات ہوئے،
3- بنت جبیل کا علاقہ
بنت جبیل کے علاقے میں، کل 20 نشستیں تھیں جن میں "ترقی اور وفاداری” کو برتری حاصل رہی۔
4- ضلع مرجعون
مزاحمتی تحریک نے "مرجعون” ضلع میں 13 میونسپل نشستیں جیت لیں۔ جن حلقوں میں انتخابات ہوئے، ان میں ترقی اور وفاداری کی فہرستیں درج ذیل ہیں: دبینہ – ادیسہ – کفر کلا – ہولا – بلیدہ – دیر سیرین
5- ضلع صیدا
صیدا میں مزاحمت نے 48 میں سے 16 میونسپل سیٹیں جیتیں۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج داخلی اور بیرونی خطرات اور دباؤ کے باوجود جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی فیصلہ کن فتح کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی لبنان کے باشندوں کی زندگیاں مزاحمت، استقامت اور صہیونی دشمن کے خلاف جنگ سے جڑی ہوئی ہیں۔
عوام نے حزب اللہ اور امل کی فہرستوں کا انتخاب کرکے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ مزاحمت کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
جنوبی لبنان کے باشندے ایسے وقت میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے انتخابی مراکز میں گئے جب صہیونی دشمن انہیں کسی بھی لمحے نشانہ بنا سکتا تھا، یہ ان کا مزاحمت سے وفاداری کا ثبوت ہے۔
سعودی عرب کے حمایت یافتہ مہروں کو رسواکن شکست
حزب اللہ کی حمایت یافتہ فہرست نے بعلبک شہر کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔ یہ فتح آسان نہیں تھی، کیونکہ بعلبک میں ایک طرف حزب اللہ اور امل تحریک کے درمیان شدید سیاسی رسہ کشی تھی تو دوسری طرف سعودی عرب کے حمایت یافتہ مہرے تھے۔
لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت کے بعد بعض غیر ملکی قوتیں بالخصوص سعودی عرب اس سال لبنان میں انتخابی اتحاد میں شامل ہوئیں تاکہ بعلبک شہر کے باشندوں کی رائے کو تبدیل کیا جا سکے۔
یہاں تک کہ وہ ووٹ خریدنے کے لئے اس علاقے کے مکینوں سے انتخابی اور مالی وعدے تک کئے گئے اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ مساجد میں بعض خطباء نے امل موومنٹ اور حزب اللہ کو گناہ قرار دیا!
بیروت اور طرابلس کے ووٹروں کی جانب سے ان انتخابات میں عدم دلچسپی کے باوجود بعلبک کا ٹرن اوٹ 70 فیصد رہا۔
قابل ذکر ہے کہ جنوبی لبنان کے 120 سے زائد علاقوں میں حزب اللہ اور امل کے حمایت یافتہ امیدوار جیت گئے معاہدے کے ذریعے جیت گئے۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ بعض گروہوں اور ممالک کی طرف سے ان انتخابات میں مزاحمت کا امیج خراب کرنے کے لئے میڈیا پروپیگنڈوں کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ رقم خرچ کی گئی۔
کئی مقامی اور غیر ملکی چینلوں نے جنوبی علاقوں میں لبنانی شہریوں کی رائے اور ووٹوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی، لیکن ان انتخابات کے نتائج میں مزاحمت کا "سونامی” سامنے آیا، جس نے مغربی اور علاقائی تجزیہ کاروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
جو لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اس سال کا الیکشن پچھلے سالوں سے بڑا مختلف ہوگا، لیکن انہیں "سخت دھچکا” لگا اور وہ حزب اللہ کی عوامی مقبولیت پر انگشت بدنداں ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کے حالیہ حملوں اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے جنوبی عوام کی نظر میں مزاحمت اور حزب اللہ کی پوزیشن کو کمزور کر دیی ہے کیونکہ ان علاقوں کو غاصبوں کے وحشیانہ حملوں سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ لیکن دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
لبنان میں پارلیمانی انتخابات آئندہ ہوں گے اور ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کے بلدیاتی انتخابات پارلیمانی الیکشن میں امل اور حزب اللہ کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔