غزہ کے لیے کارخانہ بیچ دیا، مسلمانوں کا اتحاد ختم کرنے کے لیے اندرونی سازشیں چل رہی ہیں

غزہ کے لیے کارخانہ بیچ دیا، مسلمانوں کا اتحاد ختم کرنے کے لیے اندرونی سازشیں چل رہی ہیں

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غربی اور صہیونی میڈیا برسوں سے ایران، فلسطین جیسے ممالک کی ایک خاص تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتا آیا ہےاسی وجہ سے یہ ممالک اس گمراہ کن بیانیے کا خاص نشانہ رہے ہیں۔

ترکی کی معروف ٹی وی میزبان، مصنفہ اور سماجی کارکن اکبال گورپنار ان معدود شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اس میڈیا بیانیے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایران کا دورہ کر کے نہ صرف اس معاشرے کو قریب سے دیکھا بلکہ مغربی میڈیا کے مقابلے میں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرکے ایک متوازن رائے قائم کی۔ انہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کی مدد کے لیے اپنی ذاتی فیکٹری فروخت کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔

وہ ایران کو ایک گہری تہذیب و ثقافت کا حامل ملک اور ایرانی خواتین کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے والی شخصیات کے طور پر دیکھتی ہیں۔

مہر نیوز نے اکبال گورپنار کے دورہ ایران کے دوران گفتگو کی ہے جو قارئین کہ خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔

گورپنار نے بتایا کہ دو روز تک تہران کی سیر کی، کتاب میلے کا دورہ کیا، گلستان پیلس اور قالین میوزیم گئی۔ ایرانیوں کو بااخلاق، مہربان اور مہذب پایا۔ سب سے زیادہ حیرت تب ہوئی جب دیکھا کہ یہاں خواتین آزادانہ اور پر اعتماد زندگی گزار رہی ہیں، جبکہ مغربی میڈیا اس کے برعکس ایک غلط تصویر پیش کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کو مغرب کی جانب سے ایک بند اور تاریک معاشرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میری بہو بھی ایرانی حکومت کی دعوت پر یہاں آئی تھی اور ان کی مثالی میزبانی کی گئی۔ جب مجھے دعوت دی گئی تو دل سے دعا نکلی کہ میرا خواب پورا ہو گیا۔

گورپنار نے تہران کے بین الاقوامی کتاب میلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں ایسی وسعت اور تنوع کا کوئی کتاب میلہ نہیں۔ یہاں کا میلہ بہت ہجوم سے بھرا ہوا تھا جو ایرانی قوم کی کتاب سے دلچسپی کا ثبوت ہے۔

غزہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترک میزبان نے بتایا کہ غزہ کے مظلوم عوام کی مدد کے لیے میں نے اپنی ذاتی فیکٹری فروخت کردی۔ یہ انسانیت کی پکار تھی، اور میں نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنا فرض ادا کیا۔

گورپنار نے مغربی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی حقیقت کو چھپانے اور اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ دنیا کے سیاح یہاں نہ آئیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس محدودیت نے ایران کی خوبصورتی کو محفوظ رکھا ہے۔ جس طرح غزہ کا محاصرہ فلسطینیوں کو اپنی مزاحمتی روح سے جوڑتا ہے، ویسے ہی ایران نے بھی اپنی ثقافت اور تشخص کو برقرار رکھا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ دنیا آج جس کھوکھلے پن کا شکار ہے، ایران نے اپنی تہذیب، روحانیت اور اقدار کو محفوظ رکھا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ایران دنیا کو دکھائے کہ وہ کیسا ملک ہے اور اس کی ثقافت کیسی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اسلامی تعلیمات اتحاد پر زور دیتی ہیں، پھر بھی فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کیوں متحد نہیں؟ تو گورپنار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے غزہ کے مسئلے پر اسلامی ممالک میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ مغرب نے آزادی اور جدیدیت کے نام پر ہمارے اتحاد کو توڑ دیا ہے۔ جب صہیونی عناصر سلطنت عثمانیہ کے دور میں استنبول کی گلیوں میں گھومتے تھے، تو وہ بچوں کو مسجد کی طرف دوڑتے دیکھتے۔ بچوں سے پوچھنے پر جواب دیتے کہ کہیں نماز قضا نہ ہو جائے۔ ہو سکتا ہے دس سیکنڈ میں ہم مر جائیں۔ یہی ایمان دشمنوں کو پیغام دیتا ہے کہ کسی قوم کو ختم کرنے سے پہلے اس کے عقائد کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اندرونی سازشوں سے ہوا، اور آج بھی دشمن اسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔

غزہ کے لئے اپنی امداد اور حمایت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میری پہلی امداد 7 اکتوبر کے بعد شروع ہوئی۔ میں نے نہ صرف ٹی وی سے حاصل ہونے والی آمدنی بلکہ مکان کے کرایے بھی غزہ کے لیے بھیجے۔ پھر میں نے اپنی ذاتی فیکٹری فروخت کر دی تاکہ اہلِ غزہ کی مدد کرسکوں۔ میرے جاننے والے بھی یہی کر رہے ہیں کیونکہ یتیموں، بے سہاروں اور مظلوموں کی مدد قرآن کا حکم ہے۔

اکبال گورپنار نے مغرب کے دوہرے معیار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ایک سفید فام بچے کی موت پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، لیکن جب غزہ میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوجاتے ہیں، تو ایک لفظ نہیں بولتے۔ عوام میں شعور ہے لیکن حکمرانوں کی پالیسی مختلف ہے۔ میں اسلامی ممالک کی خاموشی پر حیرت زدہ ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالی نے ہمیں جہاد کا حکم دیا ہے۔ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، لیکن مسلم دنیا اب بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ خدا نے مسجدالاقصی کی حفاظت ہمیں سونپی ہے، نہ کہ مسجدالحرام یا مسجدالنبی کی۔ مسجدالاقصی یعنی غزہ۔ اس کا تحفظ صرف اسلامی اتحاد اور مشترکہ اسلامی فوج سے ممکن ہے۔ اگر ہم عملی اقدام کریں، تو خدا ہماری بدر جیسی مدد کرے گا۔

اکبال گورپنار نے اہل غزہ کی عظمت اور دینی شعور کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں 13 بار بیت المقدس جاچکی ہوں۔ وہاں میں نے بہت سے بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھایا، ان کے لیے قرآن حفظ کرنے کی کلاسیں رکھوائیں، لیپ ٹاپ، اسٹیشنری وغیرہ فراہم کی۔

ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے کوہ احد پر غزہ کی ایک فیملی سے ملاقات کی۔ بعد میں مکہ مکرمہ میں ایک شخص نے مجھے پہچان لیا کہ میں نے کوہ احد پر اُن کا پرچم بلند کیا تھا۔ تب سے میں اس فیملی سے رابطے میں ہوں۔ 7 اکتوبر کے بعد باوجود اس کے کہ رابطہ موجود تھا، انہوں نے ایک بار بھی مدد نہیں مانگی۔ پھر ایک دن انہوں نے کہا کہ ہم مرنے کے قریب ہیں، کچھ کریں۔ میں نے کہا: ترکی آ جائیں۔ جواب ملا: غزہ میں ہیں، سرحدیں بند ہیں۔ میں نے کسی نہ کسی طرح مالی مدد پہنچائی، افطار کا اہتمام کیا، کچھ گھر مرمت کروائے۔

انہوں نے اپنی پہلی مدد کی داستان سناتے ہوئے کہا کہ میرے گینز میرا گھر دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ میں نے کہا کہ 1000 لیرا دے کر آئیں اور گھر دیکھیں یا انسٹاگرام پر لائیو دیکھ لیں۔ لوگوں نے پیسہ دیا اور گھر آئے۔ میں نے وہ تمام پیسے غزہ بھیج دیے۔ اس کے بعد جو بھی آمدنی ہوئی، وہ بھی غزہ بھیجتی رہی۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے