یمن، تل ابیب کے خلاف ایک "طاقتور دشمن"؛ امریکہ کو ذلت آمیز شکست

یمن، تل ابیب کے خلاف ایک "طاقتور دشمن"؛ امریکہ کو ذلت آمیز شکست

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: یمن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کے شدید فضائی حملوں اور ملک کے مختلف علاقوں پر صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت کے باوجود، مقبوضہ علاقوں کے خلاف اس ملک کی میزائل اور ڈرون کارروائیاں جاری ہیں اور ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی لاکھوں صہیونیوں کو بنکروں میں چھپنے پر مجبور کر دیا ہے۔

 ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یمن کے ساتھ جنگ ​​بندی کا اعلان امریکی حملوں کی کامیابی اور یمن کے خلاف ملک کے جنگی مشن کے خاتمے کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس کا سبب ان حملوں کے مہنگے اخراجات اور ان کا غیر موئثر ہونا تھا، کیونکہ امریکی جنگی طیاروں کی یمن پر شدید بمباری کے دوران یمنی میزائل کارروائیاں بند نہیں ہوئیں۔ 

اس کے علاوہ، امریکہ نے محسوس کیا کہ اس کے فوجی سازوسامان کے خلاف یمنی رد عمل ایک خطرناک حد اختیار کر رہا ہے۔

 امریکی ذرائع نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ یمنی فضائی سسٹم نے حالیہ امریکی حملوں کے دوران  متعدد امریکی F-16 اور F-35 لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنایا۔ 

یمن میں امریکی جارحیت کے پہلے مہینے میں انصار اللہ 7 امریکی MQ-9 ڈرون مار گرانے میں کامیاب ہوئی۔ 

امریکی صدر نے انصار اللہ فورسز کے خلاف فوری نتائج کا مطالبہ کیا تھا لیکن وہ امریکی افواج کی پسپائی اور آپریشنل تعطل سے حیران رہ گئے۔

 نیویارک ٹائمز نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یمن پر بڑے پیمانے پر امریکی حملوں کی وجہ سے جدید ہتھیاروں کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوا ہے، جس سے پینٹاگون میں ممکنہ چینی خطرات کے خلاف امریکی فوجی تیاریوں کو کم کرنے کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

 ان تمام عوامل کی وجہ سے امریکہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے یمن میں صیہونی حکومت کو تنہا چھوڑ دینا چاہیے۔

 ایک ضدی اور سخت دشمن 

دوسری جانب صہیونی ذرائع نے جن میں اسرائیلی فضائیہ کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یمن کی انصار اللہ تل ابیب کی سخت دشمن ہے اور یمن کا میدان جنگ انتہائی پیچیدہ ہے۔ 
صہیونیوں کے لیے یمن کی صورت حال لبنان کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ صیہونی لڑاکا طیاروں نے لبنان کے مختلف ٹھکانوں پر بمباری کی اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنے ہیڈ کوارٹر کی طرف لوٹ گئے لیکن یمن کے معاملے میں ہم دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے کی بات کر رہے ہیں۔

 ان لڑاکا طیاروں کو 2000 کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد تکنیکی تفصیلات کے ساتھ درست اور پیچیدہ معلومات کی ضرورت ہوتی ہیں۔

 صیہونیوں نے اعتراف کیا ہے کہ یمنی مسلح افواج کے پاس موجود ہتھیار انتہائی جدید ہیں جس کی وجہ سے صیہونی انٹیلی جنس سروسز کو مشکلات کا سامنا ہے۔
 یہ اس وقت ہے جب صیہونی حکومت کو دوسرے شعبوں میں جاسوسی کی کارروائیوں کی کم ضرورت رہی ہے۔
 
گذشتہ ایک ماہ کے دوران مقبوضہ علاقوں پر یمنی میزائل جدید فضائی سسٹم کو چیرتے ہوئے گورین ہوائی اڈے کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس سے غیر ملکی پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ یہ میزائل طاقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یمن کے خلاف امریکہ اور صیہونی حکومت کا کوئی بھی حملہ موثر ثابت نہیں ہوا۔

یمن مختلف ہے

صیہونی روزنامہ یدیعوت احرونوت کے رپورٹر  رونن برگمین  نے اسرائیلی چینل 12 ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا: واشنگٹن اور تل ابیب یمن کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ سینٹکام اور اسرائیلی انٹیلی جنس سروس کی طاقت یمنیوں کو شکست نہ دے سکی۔ یہ واضح ہے کہ یمنیوں کو شکست نہیں دی جا سکتی، وہ ہمیں نہایت کم وسائل سے بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل 12 نے بھی یمنیوں کو شکست دینے میں ناکامی پر ” امریکہ بہادر” کو تنقید کا نشانہ بنایا اور تسلیم کیا کہ اس مقصد (یمنیوں کی شکست) کا حصول عسکری طور پر مشکل ہے۔ 

صیہونی چینل "کان” نے بھی اطلاع دی ہے کہ یمن کے خلاف اسرائیلی حکومت کے حملے بیکار ہیں اور یمن کی مزاحمتی قوت کو کمزور نہیں کر سکتے۔ اس چینل نے تسلیم کیا کہ یمنی حملوں میں اسرائیلی معیشت کو نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی ٹی وی  چینل 12 کی رپورٹ کے مطابق یمنی کارروائیوں کی وجہ سے تل ابیب رژیم جنگ بندی معاہدے  اور غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی  حمایت اور مقبوضہ علاقوں کے خلاف  کارروائیوں اور اسرائیلی رژیم کی فضائی اور بحری ناکہ بندی کے سلسلے میں یمن کا مؤقف مستقل اور ناقابل تغیر ہے۔

صہیونی چینل نے تسلیم کیا کہ تل ابیب کو غزہ میں جنگ بند کرنی چاہیے کیونکہ اس نے بہت زیادہ قیمت چکائی ہے۔ ہر ہفتے ایک یمنی میزائل بن گورین ہوائی اڈے کی خبر لینے کے لئے کافی ہے!

یمن بالکل مختلف ہے، اور تل ابیب کو اس ملک کے بارے میں ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے، یمن کو شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کے پاس سینکڑوں بیلسٹک میزائل ہیں۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے