مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے علاقائی دورے پر کل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ سعودی حکام سے ملاقات کے علاوہ وہ عرب ممالک کے بعض دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔
اس دورے میں ایران کے ساتھ بالواسطہ جوہری مذاکرات، شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور غزہ کی پٹی میں جاری جنگ جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے۔
الجزیرہ نے اپنے ایک مضمون میں ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطی کے پانچ نکاتی ایخنڈے کا جائزہ لیا ہے خلاصہ درج ذیل ہے:
ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات
تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بالواسطہ امریکی مذاکرات کا آغاز اور 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے حوالے سے ٹرمپ کے سخت گیر موقف میں تبدیلی خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ ٹرمپ کے مذاکرات کا ایک اہم موضوع ہے۔
عرب ممالک نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے گزشتہ دو سالوں میں تہران کے ساتھ رابطے کے متعدد سفارتی راستے بھی کھولے ہیں۔
شام کی نئی حکومت اور اس کی تعمیر نو
شام کا مسئلہ خاص طور پر بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد ٹرمپ اور خلیجی ریاستوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ عرب ممالک ٹرمپ کے خطے کے دورے کو شام کی تعمیر نو اور اس ملک پر سے پابندیاں اٹھانے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں ٹرمپ کا سنگین چیلنج موجودہ حالات میں شام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے امریکہ کی قانونی ذمہ داریوں اور اسٹریٹجک علاقائی مفادات کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔
تاہم امریکہ اس ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ عرب ممالک کے لیے اس ملک کی تعمیر نو اور اس میں سیاسی استحکام قائم کرنے کی کوششوں کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
الجزیرہ کا مزید کہنا ہے کہ عرب خلیجی ممالک کو تشویش ہے کہ شام سے امریکی انخلاء کی جلد بازی ملک میں ایک نئے طویل المدتی بحران کو جنم دے گی، اس لیے وہ عرب لیگ کے رکن ممالک کے تعاون سے امریکی سیاسی حمایت سے ملک میں استحکام کے لیے ایک منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عرب ممالک پر واشنگٹن کے جنگی اخرجات مسلط کرنے کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے والے ٹرمپ اس منصوبے کو اپنے لیے ایک مناسب سیاسی موقع کے طور پر دیکھیں گے، تاکہ ایک طرف وہ شام میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں اور دوسری طرف اس کے لیے کوئی فوجی یا مالی وابستگی نہ ہو۔
غزہ میں جنگ بندی
غزہ کی پٹی میں جاری جنگ نے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ ٹرمپ کے مذاکرات کا ایک اہم ترین موضوع شاید غزہ میں جنگ بندی کے حصول کے طریقوں کا جائزہ لینا ہے۔
امکان ہے کہ ان ملاقاتوں میں خلیجی ریاستیں امریکی نگرانی میں غزہ کی تعمیر نو کی تجویز پیش کریں گی، اس طرح غزہ کی خودمختاری حماس کے علاوہ خطے کے مقامی ٹیکنوکریٹک اداروں کے حوالے کر دی جائے گی۔
ٹرمپ ممکنہ طور پر ابراہیم معاہدے کو بحال کرنے اور غزہ کی تعمیر نو اور صیہونی حکومت کے ساتھ عرب تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں گے۔
بلاشبہ اس مسئلے کو بھی سنگین رکاوٹوں کا سامنا ہے، جن میں صیہونی حکومت کا جنگی عمل میں بنیادی رعایت دینے سے انکار یا اس سلسلے میں داخلی دھڑے بندیوں کا چیلینج بھی شامل ہے۔
خلیج فارس میں ایک سیکورٹی اور دفاعی اتحاد کی تشکیل
سلامتی اور دفاعی تعاون، اسلحے کی فروخت، اور اسٹریٹجک معاہدوں کا اختتام ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے مرکزی محرکات میں سے ایک ہے۔
خلیج فارس کے عرب ممالک امریکی فوجی مدد پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور توقع ہے کہ ٹرمپ اس سفر کے دوران ان ممالک کے سکیورٹی سپورٹ کے لیے اپنے عزم کا اعلان کریں گے۔
الجزیرہ نے لکھا کہ ان ملاقاتوں کے دوران خلیج فارس میں نیٹو جیسا سکیورٹی اتحاد بنانے کا خیال بھی اٹھایا جا سکتا ہے، حالانکہ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
ٹرمپ خلیجی ریاستوں کے لیے بڑھتے ہوئے تعاون کو دفاعی اخراجات اور امریکا سے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافے سے بھی جوڑیں گے، فوجی صنعتوں میں نئی ٹیکنالوجیز کا تعارف، جیسا کہ خودکار فلائٹ سسٹم اور مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیوریٹی سے لیس نگرانی کے نظام، ان مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔