مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی حالیہ تقریر نے اس ملک کے اندرونی دشمنوں اور صیہونی حکومت کو اشتعال دلایا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے زور دیا کہ ہم سربلند، قابل فخر اور ایک حقیقی طاقت ہیں جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹر وردہ سعد نے لبنانی مصبف اور تجزیہ اسماعیل نجار سے شیخ نعیم قاسم کے حالیہ خطاب اور لبنان سے متعلق صورت حال کے حوالے سے گفتگو کی، جس کا متن حسب ذیل ہے:
مہر نیوز: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے حالیہ تقریر میں مکمل اعتماد اور اپنے فیصلہ کن لہجے کے ساتھ، مختلف مسائل پر حزب اللہ کے موقف کا اعلان کیا۔ آپ کی رائے میں وہ کون سے اہم عوامل تھے جنہوں نے حزب اللہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا؟
اسماعیل نجار: سب سے پہلے، لبنان کی حزب اللہ کی داخلی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں، مجھے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس جماعت کے قائدین نے ہمیشہ مختلف حالات میں منطق کی بنیاد پر مختلف صورت حال کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی۔ جنوبی لبنان میں مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے بعد لبنانی فریق قرارداد 1701 کی تمام شقوں اور اس کے الحاق پر کاربند رہا لیکن صیہونی حکومت نے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری رکھی، راکٹ داغے، قتل و غارت گری، مختلف دیہاتوں پر حملے اور مکانات کو تباہ کیا۔ اسی دوران، لبنان کے اندر، صیہونی دشمن کے تعاون سے، مزاحمت کو شکست دینے اور اسے غیر مسلح کرنے کے بارے میں آوازیں بلند ہوئیں اور بعض کرائے کے ٹی وی چینلوں نے دعویٰ کیا کہ حزب اللہ نے اپنے ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے!
اس صورت حال میں مزاحمت نے بڑے فیصلہ کن لہجے میں اس بات پر زور دیا کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی اور کوئی بھی مزاحمت کو غیر مسلح نہیں کر سکتا۔ انہی حالات نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کو اپنی عوامی تقریر میں اس مسئلے کو اٹھانے پر مجبور کیا، انہوں مزاحمت کی ریڈ لائنز واضح کیں اور اس حوالے سے زیر گردش افواہوں کا خاتمہ کیا۔
مہر نیوز: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے ملک کی دفاعی حکمت عملی کو حل کرتے ہوئے اسٹریٹجک فیصلہ سازی کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ انہوں اپنی تقریر میں حزب اللہ کے ہتھیاروں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی طاقت لبنانی مزاحمت کو غیر مسلح نہیں کر سکتی۔ کیا اسے حزب اللہ کےموقف اور نئی حکومت اور صدر کے ساتھ اس کے وعدوں میں تبدیلی کے طور پر دیکھا جائے گا یا یہ بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا؟
لبنانی صدر نے کئی بار زور دیا کہ ہتھیاروں پر صرف فوج کا کنٹرول ہو، اس سلسلے میں شیخ نعیم قاسم کے بیانات پختہ تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ صدر نے اس پیغام کو سمجھ لیا ہے کہ لبنانی حکومت کو سب سے پہلے صیہونی رژیم کو لبنان کے خلاف اپنی زمینی اور فضائی جارحیتوں کو روکنے اور جنوبی لبنان سے مکمل طور پر دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے بعد اسرائیل کے خطرات اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے لبنان کی حفاظت کے لیے ایک دفاعی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئے۔
اس طرح کے اقدام سے شام میں داعش اور نصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گرد گروہوں کے اقتدار میں آنے کے بعد لبنان کی مشرقی اور شمالی سرحدوں پر پیدا ہونے والے نئے خطرات کو بھی روکا جائے گا اور لبنان کو اپنے اردگرد موجود خطرات کے خلاف ضروری قوت مدافعت اور طاقت حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے ایسی صورت حال میں ہتھیار ڈالنا سب سے بڑی غلطی ہوگی۔
مہر نیوز: شیخ نعیم قاسم کا مزاحمتی ہتھیاروں کے معاملے میں ملکی مداخلت کاروں کے بارے میں موقف ایک طرف ان کی برتری کی علامت ہے اور دوسری طرف صہیونی منصوبے سے ان کی گفتگو کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ شیخ نعیم قاسم کے موقف کو کس حد تک درست سمجھتے ہیں، اور کیا یہ موقف داخلی گروہوں کو بھڑکانے کا باعث بن سکتا ہے یا ان کو روک سکتا ہے؟
لبنان کے اندر سیاسی جماعتوں کے ملک سے باہر کے ساتھ وسیع روابط ہیں، اور ان میں سے کچھ نے گزشتہ دہائیوں کے دوران مسلسل اندرونی امن اور لبنان میں بقائے باہمی کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو لبنانی عوام کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بیرونی ایجنڈے پر چلتے ہیں اور ان پروگراموں کے اہداف بین الاقوامی، عرب اور ملکی حلقوں میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں، اور یہ اسرائیل کے مفادات کے مطابق ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔
مہر نیوز: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بار پھر تحریک کے واضح موقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی حل لبنان کی سرزمین کو آزاد کرانے اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن یہ موقف ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہے گا۔ مستقبل میں تنازعات کے بڑھنے کے امکان سے متعلق پیش رفت کی روشنی میں، آپ اس موقف کا کیسے جائزہ لیتے ہیں، اور کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ الفاظ اسرائیلی جارحیت کے خلاف حتمی انتباہات کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں؟
جب مزاحمت نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تو اس نے جنگ بندی کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی اور ساتھ ہی ساتھ جنگ بندی کی تمام شقوں کی پاسداری کی۔ لیکن صیہونی حکومت نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی اور جنوبی لبنان کے دیہاتوں میں گھس کر ان دیہاتوں میں سینکڑوں گھروں کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ جنگ کے 66 دنوں کے دوران کسی گاؤں میں صہیونی پرچم نہیں لہرایا گیا تھا۔ مزاحمت نے صیہونی حکومت کی تمام جارحیتوں کو دستاویزی شکل دی اور لبنانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دشمن پر قابو پانے اور دیہاتوں کی تباہی کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرے، لیکن لبنانی حکومت اس سلسلے میں مکمل طور پر بے بس تھی، کیونکہ امریکیوں نے جنوبی لبنان کو تباہ کرنے کے لیے صیہونیوں کو ہری جھنڈی دکھائی تھی۔ مزاحمت نے اس حوالے سے اپنا لہجہ تیز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ نعیم قاسم نے خبردار کیا کہ مزاحمتی قوت صیہونی حکومت کے جرائم اور جارحیت کو ہمیشہ کے لیے برداشت نہیں کرے گی اور اس پر پابندی کی پالیسی ختم ہو رہی ہے اور اسرائیل پر حملے کا وقت آئے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمت اب بھی مضبوط ہے اور نہ صرف اسے شکست نہیں ہوئی بلکہ وہ دوبارہ لڑنے کے لیے تیار ہے اور اس لڑائی کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
مہر نیوز: جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حزب اللہ کمزور ہو گئی ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ یہ جملہ شیخ نعیم قاسم کی زبان سے کئی بار نکلا، آپ کے خیال میں یہ انتباہ کس کو دیا گیا تھا، اور حزب اللہ کی طاقت پر زور دینے والے پیغامات کیا ہیں؟
جیسا کہ میں نے کہا، لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے میں بعض نے اس جنگ میں مزاحمت کی شکست کو یقینی جانا تھا اور وی سوشل میڈیا پر اس کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ دعوے ایسے حالات میں کیے گئے جب مزاحمتی رہنماؤں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ حزب اللہ کے رہنماؤں نے مزاحمت کی تیاری اور متعدد محاذوں پر لڑنے کے لیے اس کی طاقت کی بحالی کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔
مہر نیوز: لبنان کبھی بھی امریکی تسلط میں نہیں رہے گا، اور حزب اللہ کبھی بھی لبنانی فیصلہ سازی پر امریکی تسلط کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گی۔ کیا آپ کے خیال میں امریکی کیمپ میں مزید لبنانی تحریکوں کی موجودگی کے پیش نظر یہ ممکن ہے؟ اور کیا حزب اللہ اور اس کے اتحادی لبنان میں مساوات کو تبدیل کر کے نیا توازن پیدا کر سکتے ہیں؟
لبنان پر امریکی تسلط ایک روایتی مسئلہ ہے جو آج زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ حزب اللہ طاقتور ہے اور مختلف قبائل میں اس کے حامی اور سازگار بیس موجود ہیں اور اگر شیخ نعیم قاسم نے میز کو اُلجھانا چاہا تو حالات بدل جائیں گے اور "امریکہ کے لوکل چوہے” چھپ جائیں گے۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ لبنانی فوج اور اس کے کمانڈروں کے ساتھ مزاحمت کے تعلقات ایک لمحے میں پیدا نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ گہرے اور تاریخی تعلقات ہیں اور مزاحمت کے عناصر اور فوج کا خون آپس میں ملا ہوا ہے۔ لہذا لبنانی معاشرے کے اتحاد اور داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے فریقین کے درمیان اعلیٰ سطح پر مشترکہ رابطہ ضروری ہے اور صیہونی حکومت کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی طاقت فوج، قوم اور مزاحمت کی بنیادوں میں دراڑ نہیں ڈال سکتی۔
مہر نیوز: حالیہ تقریر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے لہجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمت اب بھی مضبوط ہے اور کسی بھی وقت میدان جنگ میں واپس آ سکتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے پیغام نے ثابت کر دیا کہ مزاحمت مضبوط اور طاقتور ہے۔ پیغام یہ تھا کہ اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ہمیں شکست دے دی ہے تو زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ہم میدان میں واپس آئیں اور پوری دنیا مزاحمت کی طاقت کا مشاہدہ کرے گی۔