مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کے ماہر پروفیسر جان مرشیمر نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے رویے کو غیر متعادل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی باتوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اکثر اپنی باتیں بدلتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ ایران پر فوجی حملے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ انتہائی حماقت ہوگی کیونکہ اس سے خطے اور عالمی معیشت پر خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ بخوبی جانتے ہیں کہ ایران سے معاہدہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ اس وقت ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت ہے، جو اب 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بات امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
مرشیمر نے یاد دلایا کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں ایران کی افزودگی کی صلاحیت پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں، تاہم ایران کو اپنی جوہری تنصیبات برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ انہی امور کو بنیاد بنا کر ٹرمپ نے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی، جس کی اسرائیل نے بھی حمایت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اپنی سابقہ پالیسی پر قائم رہیں گے یا ایران کی جوہری تنصیبات اور افزودگی کا حق تسلیم کرلیں گے؟ اس بارے میں ٹرمپ نے تاحال کوئی واضح جواب نہیں دیا ہے، تاہم صدر ٹرمپ ممکنہ طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے اور ایران کی حقیقت پسندانہ پوزیشن کو تسلیم کریں گے۔
مرشیمر نے مزید کہا کہ اگر ٹرمپ ایران سے نیا معاہدہ کرتے ہیں تو ان کے اپنے سخت گیر حامی شاید اسے اوباما کی پیروی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنائیں، لیکن ٹرمپ کے لیے اپنی بات بدلنا کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ کل کچھ اور کہہ سکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ معمول کی بات ہے۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ اگرچہ ٹرمپ شاید 2015 جیسا معاہدہ دوبارہ نہ لائیں، لیکن وہ ایک نیا، زیادہ سخت اور پیچیدہ معاہدہ چاہتے ہیں جس میں ایران سے کئی اضافی مطالبات شامل ہوں گے۔