یورینیئم کی افزودگی اور میزائل ٹیکنالوجی ایران کی ریڈلائنز

یورینیئم کی افزودگی اور میزائل ٹیکنالوجی ایران کی ریڈلائنز

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس تعطل کی بنیادی وجہ امریکی وفد کی ہٹ دھرمی اور حد سے بڑھتی ہوئے مطالبات ہیں۔

ذرائع کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کے آغاز میں صرف اس بات پر زور دیا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے۔ تاہم، تین اعلی سطحی اور ایک تکنیکی نشست کے بعد امریکہ نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کا حق نہیں ہونا چاہیے اور اسے اپنی میزائل صلاحیت کو بھی محدود کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ امریکہ اب ایران کی فوجی تنصیبات کے معائنے کی بھی بات کر رہا ہے۔

یہ مطالبات اس وقت سامنے آ رہے ہیں جب ایران ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوا ہے، جس کی بنیاد چند اہم سرخ لکیروں پر ہے:

1. مذاکرات کا دائرہ صرف جوہری امور تک محدود رہے گا؛ میزائل پروگرام جیسے موضوعات اس سے باہر ہیں۔

2. ایران کی جوہری خودکفالت خصوصا یورینیم کی افزودگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

3. ایران کسی زبانی وعدے کے بدلے فوری طور پر کوئی رعایت نہیں دے گا بلکہ امریکہ کو پابندیاں اٹھانے کے لیے مؤثر اور قابل اعتماد ضمانت دینی ہوگی۔

ایرانی حکام کا مؤقف ہے کہ امریکہ ان اصولوں سے باخبر ہونے کے باوجود مسلسل ان کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس سے اس کی ناقابل اعتماد حیثیت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران کا جوہری پروگرام واقعی پرامن مقاصد کے لیے ہے، تو اسے یورینیم کی افزودگی ترک کرنی چاہیے اور دیگر ممالک کی طرح افزودہ یورینیم بیرون ملک سے حاصل کرنا چاہیے۔ تاہم ایران نے اس دعوے کو بے بنیاد اور غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے کئی عقلی اور عملی نکات اٹھائے ہیں۔

اول، دنیا کے کئی ممالک جوہری توانائی کے پرامن استعمال میں مصروف ہیں اور اپنے ہاں یورینیم کی افزودگی خود انجام دیتے ہیں اور وہ اسے باہر سے درآمد نہیں کرتے۔ دوم، ایران کو ماضی میں یورینیم درآمد کرنے کے حوالے سے امریکہ کی وعدہ خلافیوں کا براہ راست تجربہ ہے۔ 2010 میں جب تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لیے ایندھن درکار تھا، جس پر 8 لاکھ 50 ہزار کینسر کے مریضوں کی زندگی کا دارومدار تھا۔ امریکہ نے اسے فراہم کرنے سے انکار کردیا اور اس وقت کے صدر باراک اوباما نے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے انسانی ہمدردی کو بھی نظرانداز کیا۔

ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش سے ملاقات میں حالیہ ایران-امریکہ بالواسطہ مذاکرات اور عمان کی جانب سے آئندہ دور کی تیاریوں پر بریفنگ دی۔ عراقچی نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سفارتی حل کو ترجیح دی ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا فریق سنجیدہ ارادہ اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ ایران این پی ٹی کا پابند ہے اور پرامن جوہری توانائی کے استعمال کا حق رکھتا ہے، جس کے لیے یورینیم کی افزودگی ناگزیر ہے۔ ماضی کی تلخ یادیں اور مغربی طاقتوں کی وعدہ خلافیاں یہ واضح کرتی ہیں کہ کوئی بھی معاہدہ صرف اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ منصفانہ اور یکساں مفادات کی بنیاد پر ہو، اور دوسری جانب سے اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کی ضمانت دی جائے۔

عراقچی نے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ گزشتہ سال ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اب بھی یورپی فریقین کے ساتھ تعمیری مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

عراقچی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کو این پی ٹی کے بانی رکن کی حیثیت سے، مکمل جوہری توانائی سے فائدہ اٹھانے کا قانونی حق حاصل ہے۔ جھوٹ کو بار بار دہرانے سے بنیادی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔

انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کے کئی این پی ٹی رکن ممالک، جن میں ایشیا، یورپ اور جنوبی امریکہ کے ممالک شامل ہیں، خود یورینیم کی افزودگی کرتے ہیں۔ عراقچی نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ اور اشتعال انگیز بیانات کسی بھی ممکنہ کامیاب معاہدے کے امکانات کو ختم کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک معتبر اور پائیدار معاہدہ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے سیاسی عزم اور منصفانہ نقطۂ نظر درکار ہے۔

عراقچی کے بیان کا براہ راست اشارہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے حالیہ بیانات کی طرف تھا، جنہوں نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران پر الزام لگایا کہ وہ یورینیم افزودگی، دہشتگردی کی حمایت اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایرانی حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ملکی دفاع اور میزائل طاقت پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایران کی قومی سلامتی سے جڑا مسئلہ ہے۔

الحدث چینل نے ایک فرانسیسی ذریعے کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ اگر ایران نے جوہری معاہدے کی شرائط پر عمل نہ کیا تو فرانس، جرمنی اور برطانیہ اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ فعال کردیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک منظم دباؤ کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

اس تناظر میں جوہری معاہدے کی مدت اکتوبر 2025 میں ختم ہو رہی ہے، اور یورپی ممالک ایک نئے معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مشیر علی لاریجانی نے تہران میں ایک علمی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی ممالک ایران پر مزید دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں تو ایران کمزور ریاست نہیں ہے۔ وہ اپنا دفاع کرنا جانتا ہے۔ سیاسی حلقے لاریجانی کے اس بیان کو ممکنہ طور پر ایران کی جوہری دکٹرائن میں تبدیلی کا عندیہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مغرب کا موقف معاہدہ یا حملہ ہے، تو ایران کا جواب بھی معاہدہ یا دکٹرائن کی تبدیلی ہوسکتا ہے۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے