مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یمن کی انصار اللہ کے سربراہ عبدالملک الحوثی نے اپنے خطاب میں کہا: یمن کے خلاف امریکی جارحیت صیہونی حکومت کی حمایت میں ہورہی ہے اور یہ ہمارے اور تل ابیب کے درمیان موجودہ جنگ کا حصہ ہے۔
اس ہفتے تقریباً 1300 فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی دشمن نے غزہ پر اپنے حملوں میں سات ہزار سے زائد خاندانوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ ان حملوں کو نسل کشی تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی میں طبی خدمات کی فراہمی کو ختم کرنے کی کوشش میں 1400 سے زائد ڈاکٹروں کو شہید کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پٹی کا محاصرہ مسلسل دوسرے مہینے سے جاری ہے جب کہ قحط نے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو موت کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بچی ہوئی تھوڑی سی خوراک پر خواتین اور بچوں کے جمع ہونے کے مناظر عالمی برادری کے لیے شرمناک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنان کے بارے میں میں یہ بھی کہوں گا کہ صہیونی دشمن اس ملک کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ دشمن نے اس ہفتے لبنان میں نئی جگہوں پر قبضہ کیا ہے۔
لبنان کا کمزور سرکاری مؤقف بتاتا ہے کہ ملک میں مزاحمت کا کردار کتنا اہم ہے
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے کہا کہ لبنان میں مزاحمت صیہونی دشمن کے خلاف ایک حقیقی ڈھال کے طور پر کام کر رہی ہے اور اگر مزاحمت نہ ہوتی تو صیہونی لبنان پر مکمل قبضہ کرچکے ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم حزب اللہ اور اس کے سیکرٹری جنرل کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ایک طاقتور خطاب کے ذریعے دشمن کو خبردار کیا اور ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ صہیونی جارحیت کے خلاف ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یمن کی انصاراللہ کے سربراہ نے کہا کہ شام کے بارے میں، ہم ابھی تک اس ملک میں صیہونی حکومت کی جارحیت اور قبضے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مصر کے حوالے سے میں یہ بھی کہوں گا کہ مجرم ٹرمپ مصر کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ اس نے نہر سویز کے حوالے سے بیانات دیے تھے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کی توسیع پسندی ہر کسی کو نشانہ بناتی ہے اور کوئی بھی اس جارحیت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ تیسرے ہزاریے کے آغاز کے ساتھ ہی صیہونی امت اسلامیہ کے خلاف اپنے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔
صہیونی رژیم کا ہماری قوم کو نشانہ بنانے کا موجودہ مرحلہ بہت خطرناک ہے
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی منصوبے کے دو حصے ہیں: فوجی حملہ اور نرم جنگ۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ امت اسلامیہ کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ 57 ممالک غزہ کی پٹی میں ایک روٹی کا ٹکڑا یا دودھ کی بوتل تک غزہ نہیں پہنچا سکتے جو کہ نہایت شرمناک ہے۔