وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری، حکومت نے کہا ’وقف اسلام کا ضروری حصہ ہے ہی نہیں‘

وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری، حکومت نے کہا ’وقف اسلام کا ضروری حصہ ہے ہی نہیں‘

سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کے مطابق اب ایک جھوٹی کہانی تیار کی جا رہی ہے کہ وقف چھینا جا رہا ہے۔ یہ کچھ اور نہیں بلکہ ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون پر سماعت، تصویر سوشل میڈیا</p></div><div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون پر سماعت، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون پر سماعت، تصویر سوشل میڈیا

user

عدالت عظمیٰ میں آج ایک بار پھر ’وقف (ترمیمی) قانون، 2025‘ کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر سماعت ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ عبوری حکم جاری کرنے کے مقصد سے یہ سماعت کر رہی ہے اور آج مرکزی حکومت کی طرف سے دلیلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ کے سامنے 20 مئی کو عرضی گزاروں کے وکلاء نے وقف ترمیمی قانون میں موجود کئی خامیوں کو سامنے رکھا تھا، اور آج حکومت کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا اپنی بات رکھ رہے ہیں۔

سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے آج اپنی بات کی شروعات اس طرح کی کہ جن اشخاص کے ذریعہ مفاد عامہ عرضیاں داخل کی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی متاثرہ فریق یا شخص نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانونی طاقت ہے یا نہیں، یہ سوال ہی نہیں ہے۔ یہی واحد بنیاد تھی جس پر پہلے کسی قانون پر روک لگائی گئی تھی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ عرضی دہندگان پورے مسلم طبقہ کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔

مرکزی حکومت کی طرف سے ایک اہم بات عدالت میں یہ رکھی گئی کہ استعمال کی بنیاد پر وقف مانی جانے والی جائیداد یعنی ’وقف بائی یوزر‘ کا اصول کہیں سے بھی بنیادی حق تصور نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی طرف سے دلیلیں پیش کر رہے تشار مہتا نے یہ بھی کہا کہ وقف اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے۔ یہ محض عطیہ کا طریقہ ہے۔ اس کو مذہب کا لازمی حصہ نہیں تصور کیا جا سکتا۔ یہ ٹھیک اسی طرح کا عطیہ ہے، جیسے ہندو یا سکھ یا عیسائی مذاہب میں ہوتا ہے۔

تشار مہتا کے ذریعہ ظہرانہ (لنچ بریک) کے بعد بھی کئی باتوں پر مرکزی حکومت کا رخ واضح انداز میں رکھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اب ایک جھوٹی کہانی یہ بنائی جا رہی ہے کہ وقف چھینا جا رہا ہے۔ یہ کچھ اور نہیں، بلکہ ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ تین استثنائیت کے ساتھ مستقبل میں ’وقف بائی یوزر‘ کی اجازت نہیں ہے۔ اسے رجسٹرڈ ہونا چاہیے، کوئی بھی نظام نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ کوئی اٹھ کر کہتا ہے کہ 2024 تک وقف ہے اور رجسٹریشن نہیں ہے۔ یہ 102 سالوں سے قابل سزا عمل کو جائز بنانے جیسا ہوگا، اور دوسری استثنائیت سرکاری ملکیتوں کے لیے ہے۔ حکومت ملکیتوں کی مالک نہیں ہے، لیکن کسٹوڈین ہے۔

تشار مہتا یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت سبھی شہریوں کے لیے ٹرسٹ کی شکل میں زمین رکھتی ہے۔ ’وقف بائی یوزر‘ کی تعریف کے مطابق ملکیت کسی اور کی ہے۔ آپ نے صرف مستقل استعمال کرنے کا حق حاصل کیا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ذاتی سرکاری ملکیت کا استعمال طویل مدت تک کیا جائے۔ اگر کوئی عمارت ہے، جہاں پر سرکاری ملکیت ہو سکتی ہے، کیا حکومت یہ جانچ نہیں کر سکتی کہ ملکیت حکومت کی ہے یا نہیں؟ سالیسیٹر جنرل مزید کہتے ہیں کہ شروعاتی بل میں کہا گیا تھا کہ کلکٹر فیصلہ کرے گا۔ اعتراض یہ تھا کہ کلکٹر اپنے معاملے میں خود جج ہوگا۔ اس لیے جے پی سی نے مشورہ دیا کہ کلکٹر کے علاوہ کسی دیگر کو نامزد افسر بنایا جائے۔

سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کے مذکورہ بیان پر چیف جسٹس گوئی نے سوال کیا کہ ’’یعنی یہ صرف ایک کاغذی انٹری ہوگی۔‘‘ جواب میں مہتا نے کہا کہ یہ ایک کاغذی انٹری ہوگی، لیکن اگر حکومت مالکانہ حق چاہتی ہے تو اسے ٹائٹل کے لیے مقدمہ داخل کرنا ہوگا۔ اگر کوئی ٹرسٹ کی ملکیت سے نمٹ رہا ہے تو اسے پتہ ہوگا کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق حکومت مالک ہے، نہ کہ وقف۔ پھر سی جے آئی نے کہا کہ عرضی دہندگان کی طرف سے جو تصویر پیش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک بار کلکٹر جانچ کر لے تو ملکیت وقف کی نہیں رہ جائے گی، اور ایک بار جانچ پوری ہو جانے پر پوری ملکیت حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ اس کے جواب میں تشار مہتا نے کہا کہ ہمیں مالکانہ حق کے لیے ٹائٹل سوٹ کرنا ہوگا۔ پھر جسٹس مسیح نے سوال کیا کہ ’’یعنی جب تک قانون کا سہارا نہیں لیا جاتا، تب تک قبضہ ایسے ہی جاری رہے گا؟‘‘ جواب میں سالیسیٹر جنرل نے کہا ’’ہاں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے