وقف ترمیمی قانون: آج کی سماعت ختم، کل حکومت رکھے گی اپنا موقف، عرضی گزار کے وکلاء نے پیش کیں 10 بڑی دلیلیں

وقف ترمیمی قانون: آج کی سماعت ختم، کل حکومت رکھے گی اپنا موقف، عرضی گزار کے وکلاء نے پیش کیں 10 بڑی دلیلیں

سپریم کورٹ میں آج تقریباً 4 گھنٹے تک وقف ترمیمی قانون پر سماعت ہوئی۔ اس دوران قانون کو چیلنج پیش کرنے والے عرضی دہندگان کے وکلاء کی طرف سے مضبوط دلائل پیش کیے گئے۔ کل حکومت ان کا جواب دے گی۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون پر سماعت، تصویر سوشل میڈیا</p></div><div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون پر سماعت، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون پر سماعت، تصویر سوشل میڈیا

user

’وقف (ترمیمی) قانون، 2025‘ کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے عرضی گزاروں کے وکلاء کی دلیلیں بغور سنیں اور کچھ معاملوں میں وضاحت کے لیے سوال بھی سامنے رکھے۔ آج ظہرانہ سے قبل اور پھر اس کے بعد مجموعی طور پر تقریباً 4 گھنٹے کی سماعت ہوئی جس میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف کئی مضبوط دلیلیں پیش کی گئیں۔ آج کی سماعت کے دوران عرضی دہندگان کے وکلاء کپل سبل، ابھشیک منو سنگھوی، راجیو دھون، حذیفہ احمدی وغیرہ نے اپنی بات عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھی۔ کل جب سماعت شروع ہوگی تو حکومت کی طرف سے عرضی گزار کے خدشات اور سوالات پر جواب پیش کیے جائیں گے۔ آج کی سماعت میں مذکورہ وکلاء نے کئی مضبوطی دلیلیں پیش کیں، جن میں سے 10 اہم دلائل ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

دلیل نمبر 1: سینئر ایڈووکیٹ ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ عطیہ دوسرے مذاہب میں بھی ہوتے ہیں، لیکن کس مذہب کے لیے لوگوں کے لیے یہ انتظام ہے کہ آپ کو 5 سال یا 10 سال اس مذہب پر عمل کرنے کا ثبوت دکھانا ہوگا؟ وقف ترمیمی قانون میں موجود یہ سہولت آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔

دلیل نمبر 2: ایڈووکیٹ ابھشیک منو سنگھوی نے دلیل پیش کی کہ وقف کے رجسٹریشن کے نام پر ایک طرح کی دہشت پیدا کی جا رہی ہے۔ جہاں متعلقہ شخص یا ادارہ کو بار بار رجسٹریشن کرانے دفتر جانا ہوگا۔ سنگھوی نے سروے اور اس کے بعد حکومت کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار پر بھی سوال اٹھائے۔

دلیل نمبر 3: ایڈووکیٹ سنگھوی کی دلیل یہ بھی تھی کہ ’وقف بائی یوزر‘ یعنی استعمال کی بنیاد پر وقف مانی جانے والی بیشتر جائیدادوں کا کہیں کوئی رجسٹریشن نہیں ہے۔ اب ان جائیدادوں کو ایک طرح سے انصاف مانگنا ہوگا۔ کوئی بھی آنے والے دنوں میں تنازعہ کھڑا کر سکتا ہے، اور اس طرح وقف کا درجہ ختم ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر 4: ایڈووکیٹ سنگھوی نے یہاں تک کہا کہ نئی ترمیم کا سیکشن 3 ڈی چونکہ قدیم یادگاروں کے لیے بنے قوانین پر بھی نافذ ہوتا ہے، اس کا اثر ان مذہبی مقامات پر بھی پڑ سکتا ہے جو اب تک ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ کسی ایک مذہب سے منسلک جائیداد کے لیے اس طرح کا انتظام کرنا آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔

دلیل نمبر 5: سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھون نے عرضی دہندگان کی طرف سے کہا کہ مذہبی ملکیتوں کی تعریف کو برطانوی دور میں بھی نہیں بدلا گیا۔ ہم ایک سیکولر ملک ہیں۔ میرا ایک موکل جو سِکھ ہے، وہ وقف کرنا چاہتا ہے، لیکن اس قانون کے بعد کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ اس طرح تو عدالتوں نے جو بھی سیکولر فیصلے اب تک دیے ہیں، وہ ایک جھٹکے میں ختم ہو جائیں گے۔

دلیل نمبر 6: ایڈووکیٹ دھون نے واضح کیا کہ وقف اور اس سے جڑے قدیم قوانین پر کئی آئینی بنچ فیصلے دے چکی ہیں۔ چاہے وہ بابری مسجد کا معاملہ ہو یا پھر کوئی دوسرا۔ سبھی معاملوں میں وقف بائی یوزر یعنی استعمال کی بنیاد پر وقف ملکیت بنے رہنے کا فیصلہ یہی عدالت دے چکی ہے، پھر اب یہ نیا کیوں؟

دلیل نمبر 7: کپل سبل نے اے ایس آئی کی ویب سائٹ پر موجود ایک فہرست دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب وہ محفوظ ہو جاتے ہیں تو اس کا وقف کا درجہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں جامع مسجد سنبھل بھی شامل ہے۔ اس لیے کوئی بھی تنازعہ اٹھے گا اور پھر اس جگہ کا وقف درجہ ختم ہو جائے گا۔

دلیل نمبر 8: آج کی سماعت کے دوران جب ملک کے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ مجموعی طور پر 3 موضوعات ہیں، جن پر روک کا مطالبہ کیا گیا ہے، تو سبل نے کہا کہ صرف 3 موضوعات نہیں ہیں۔ پورے وقف پر قبضہ کا معاملہ ہے۔ ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ قانون کا مقصد وقف پر قبضہ کرنا ہے۔ قانون اس طرح بنایا گیا ہے کہ وقف جائیدادوں کو بغیر کسی طریقۂ کار پر عمل کیے چھین لیا جائے۔

دلیل نمبر 9: ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ وقف جائیدادوں کے انتظام کا حق چھین لیا گیا ہے۔ مرکزی وقف کونسل کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہیں۔ نئے قانون کی دفعہ 9، اس میں 12 غیر مسلم اور 10 مسلم ہیں۔ پہلے یہ سبھی مسلم تھے۔ اب یہ سبھی نامزد ہیں۔

دلیل نمبر 10: پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے کے التزام پر ایڈووکیٹ حذیفہ احمدی نے سخت اعتراض ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ کس طرح طے ہوگا کہ مجیں اسلام مذہب پر عمل کرتا ہوں یا نہیں؟ کیا کوئی مجھ سے یہ پوچھ کر طے کرے گا کہ میں 5 وقت کا نماز پڑھتا ہوں یا نہیں۔ یا پھر کوئی یہ پوچھے گا کہ میں شراب پیتا ہوں یا نہیں، کیا اس طرح سے طے کیا جائے گا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے