میرٹھ میں محجوب طالبہ کو داخلہ سے روک دیا گیا۔ اترپردیش میں نیا تنازعہ ویڈیو وائرل، مسلم برادری میں غم و غصہ

میرٹھ میں محجوب طالبہ کو داخلہ سے روک دیا گیا۔ اترپردیش میں نیا تنازعہ ویڈیو وائرل، مسلم برادری میں غم و غصہ

حیدرآباد (منصف نیوز ڈیسک)میرٹھ کے ایک انٹر کالج میں ایک مسلم محجوب طالبہ کو کلاس میں داخل ہونے سے روکنے کے واقعے نے اتر پردیش میں نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔

کلارین کی رپورٹ کے مطابق خالصہ گرلز انٹر کالج کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں طالبہ خود یہ دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اسے صرف اس لیے روکا گیا کیونکہ اس نے چہرے پر حجاب لیا تھا۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبہ اور ایک ٹیچر کے درمیان تلخ کلامی ہو رہی ہے۔

طالبہ کہتی سنائی دیتی ہے”مجھے کہا گیا کہ جب تک میں حجاب نہیں ہٹاتی مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ میں برسوں سے حجاب پہن کر آ رہی ہوں، آج یہ کیوں؟“بعد ازاں وہ کالج کے منیجر کے دفتر پہنچتی ہے جہاں ایک خاتون اسٹاف ممبر کہتی ہے ”ہم صرف چہرے سے ہٹانے کا کہہ رہے ہیں۔“

یہ ویڈیو سامنے آتے ہی مختلف مسلم تنظیموں اور شہریوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا ہے۔کالج انتظامیہ نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ادارے میں حجاب پر کوئی پابندی نہیں ہے اور تمام طلبہ کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا”ہمارے ہاں کئی مسلم طالبات زیر تعلیم ہیں، کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔“تاہم ویڈیو بنانے والی طالبہ اپنے مؤقف پر قائم ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ صرف اسے نشانہ بنایا گیا اور اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا گیا۔اس نے کہا ”پہلی بار مجھے اس طرح روکا گیا۔ تعلیم اور مذہب میں سے کسی ایک کو چننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔“طالبہ کے والدین نے بھی اس واقعے پر صدمے کا اظہار کیا۔ والد نے کہا”ہماری بیٹی کسی خاص رعایت کی طلبگار نہیں، وہ صرف عزت کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔“

ضلع اسکول انسپکٹر راکیش کمار نے ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ معاملے کی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا”ہم نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔“کمار کا کہنا تھا کہ انہیں میڈیا رپورٹس کے ذریعے واقعے کی اطلاع ملی اور اس معاملے کو حساسیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔واقعے نے مسلم طبقے میں پرانے زخم تازہ کر دیئے ہیں۔

مقامی سماجی کارکن فرحانہ ناز نے کہا”یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ کرناٹک سے لے کر اب یوپی تک، مسلم لڑکیوں کو بار بار ان کے مذہبی لباس پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔“انہوں نیکہا ”ایک سیکولر ملک میں اس طرح کا رویہ قابل قبول نہیں ہے۔ آئین ہمیں مذہبی آزادی دیتا ہے، پھر اسکولوں میں کیوں روکا جا رہا ہے؟“شہر کے کئی مسلم طلبہ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ایک مقامی اسکول کی بارہویں کی طالبہ مہناز نے کہا”اگر میرٹھ میں ہو سکتا ہے تو کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ ہم تعلیمی اداروں سے باہر دھکیلے جا رہے ہیں۔“

برادری کے قائدین نے بھی کالج کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے مذہبی تعصب کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مولانا رحمت علی نے کہا”یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ اگر آج خاموش رہے تو کل مزید لڑکیوں کو تعلیم چھوڑنی پڑے گی۔“یہ معاملہ مقامی ہونے کے باوجود قومی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن، وکلا اور اقلیتی گروہ سوشل میڈیا پر اسے ’مسلم شناخت پر خاموش جنگ‘ قرار دے رہے ہیں۔





[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے