ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ قابل استقبال، اب حکومت تاریخ بتائے: راہل گاندھی

راہل گاندھی نے کہا ’’میں دہرانا چاہتا ہوں کہ ذات پر مبنی مردم شماری پہلا قدم ہے۔ ہمارا ویزن ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعہ ترقی کی نئی مثال قائم کرنا ہے۔‘‘


پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی، تصویر ویپن/قومی آواز
’’پارلیمنٹ میں ہم نے کہا تھا کہ ہم ذات پر مبنی مردم شماری کروا کر رہیں گے۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ 50 فیصد کی جو حد (ریزرویشن) ہے، اسے بھی توڑیں گے۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ پی ایم مودی نے ذات پر مبنی مردم شماری کا آج اعلان کیا۔ اب حکومت سے جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کب تک ہوگا۔ تلنگانہ اس میں ایک ماڈل اسٹیٹ بنا ہے۔ اس کے لیے بہتر بلو پرنٹ کی ضرورت ہے۔ ہم اس کا ڈیزائن بنا کر دیں گے۔‘‘ یہ بیان لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی نے مرکزی حکومت کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کے فیصلہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں دیا۔
راہل گاندھی نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں کیا ہوا، لیکن اچانک 11 سال بعد آج حکومت کی طرف سے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر دیا گیا۔ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ہم ایک مدت کار چاہتے ہیں۔ یہ پہلا قدم ہے۔ تلنگانہ ذات پر مبنی مردم شماری میں ایک ماڈل بن گیا ہے۔ ہم ذات پر مبنی مردم شماری کا خاکہ تیار کرنے میں حکومت کو اپنی حمایت دیتے ہیں۔ بہار اور تلنگانہ اس کی دو مثالیں بھی ہیں، حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔
راہل گاندھی نے ذات پر مبنی مردم شماری کو پہلا قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں دہرانا چاہتا ہوں کہ ذات پر مبنی مردم شماری پہلا قدم ہے۔ ہمارا ویزن ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعہ ترقی کی نئی مثال قائم کرنا ہے۔ صرف ریزرویشن ہی نہیں، بلکہ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں او بی سی، دلت اور قبائلی کی کتنی شراکت داری ہے؟ ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعہ اس کا پتہ چل جائے گا، لیکن ہمیں ذات پر مبنی مردم شماری سے آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کانگریس نے ایک معاملہ اٹھایا تھا۔ اس کا ذکر منشور میں بھی کیا گیا تھا، وہ ہے آرٹیکل (5)15۔ یعنی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن۔ یہ پہلے سے ہی ایک قانون ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اسے نافذ کرنا شروع کرے۔‘‘
پریس کانفرنس کے دوران راہل گاندھی نے ذات پر مبنی مردم شماری سے متعلق کچھ اہم باتوں کا ذکر کرنے کے علاوہ اپنے مطالبات بھی حکومت کے سامنے رکھے۔ انھوں نے کہا کہ ’’حکومت کو واضح طور پر بتانا چاہیے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کب اور کیسے ہوگی؟ نسلی اعداد و شمار کی بنیاد پر 50 فیصد ریزرویشن کی حد کو ہٹانا بھی ضروری ہوگا۔‘‘ کانگریس رکن پارلیمنٹ نے یہ مشورہ بھی دیا کہ حکومت تلنگانہ کی طرح ذات پر مبنی سروے ماڈل اختیار کرے جو تیز، شفاف اور مشمولہ ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کی طرح پرائیویٹ اداروں میں بھی ریزرویشن نافذ ہو۔
حکومت کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کے فیصلہ پر کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کا رد عمل بھی سامنے آ گیا ہے۔ انھوں نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر جاری کردہ ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’کانگریس نے لگاتار ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ اٹھایا تھا، جس کی سب سے بلند آواز راہل گاندھی رہے۔ آج مودی حکومت نے مردم شماری کےس اتھ ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ درست قدم ہے، جس کا ہم پہلے دن سے مطالبہ کر رہے تھے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے کئی بار اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا اور وزیر اعظم کو خط بھی لکھا۔ انڈیا اتحاد کے لیڈران نے بھی کئی بار ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا ہے اور لوک سبھا انتخاب میں یہ اہم ایشو بنا۔ بار بار وزیر اعظم مودی سماجی انصاف کی اس پالیسی کو نافذ کرنے سے بچتے رہے اور اپوزیشن پر سماج کو تقسیم کرنے کا جھوٹا الزام عائد کرتے رہے۔‘‘
ذات پر مبنی مردم شماری کو ضروری قرار دیتے ہوئے ملکارجن کھڑگے نے لکھا کہ ’’اس کی عدم موجودگی میں بامعنی سماجی انصاف اور امپاورمنٹ پروگراموں کا نفاذ ادھورا ہے، اسی لیے یہ سبھی طبقات کے لیے ضروری ہے۔ مردم شماری کے لیے اس سال کے بجٹ میں بھی صرف 575 کروڑ روپے الاٹ کیے گئے ہیں، اس لیے یہ سوال مناسب ہے کہ حکومت اسے کیسے اور کب پورا کرے گی۔ کانگریس پارٹی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مودی حکومت جلد از جلد بجٹ کا انتظام کرے، مردم شماری اور ذات پر مبنی مردم شماری کا کام پوری شفافیت کے ساتھ شروع کرے۔‘‘
اس درمیان کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے مودی حکومت کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کے فیصلے کا سہرا راہل گاندھی کے سر باندھا ہے۔ انھوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’راہل گاندھی جی نے کہا ’گنتی کرو‘۔ اب مودی حکومت گنتی کروا رہی ہے۔ ہمارے لیڈر راہل گاندھی جی نے جب کہا تھا ’ذات پر مبنی مردم شماری سماج کا ایکسرے ہے‘ تب برسراقتدار پارٹی کے لوگوں نے ان کا مذاق بنایا، نظر انداز کیا، ٹال مٹول کی۔‘‘
سوشل میڈیا پوسٹ میں جئے رام رمیش آگے لکھتے ہیں کہ ’’انھوں نے (راہل گاندھی نے) طویل مدت سے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ بار بار پارلیمنٹ میں، عوامی اجلاس میں، یاتراؤں میں یہ ایشو اٹھایا۔ لیکن کروڑوں لوگوں کے حق کی آواز کب تک دبتی؟ اب مودی حکومت ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کو راضی ہوئی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’خیر، دیر آید درست آید۔ یہ سماجی انصاف یقینی بنانے کی سمت میں ایک فیصلہ کن قدم ہے۔ یہ ہندوستان کے کروڑوں افراد کی جیت ہے۔ یہ ان سبھی کی جیت ہے جو سالوں سے برابری، مساوات اور نمائندگی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔