حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیہ عالم تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تمہاری زبان برابر اللہ کے ذکر میں تر بتر رہنی چاہئے ۔ زبان سے اللہ تعالی کا ذکر مبارک ایسی عظیم نعمت ہے جس کی بدولت انسان آخرت میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازا جائے گا، اور دنیا میں شیطان معین کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ سامانیوں سے محفوظ رہے گا۔ ایک روا بیت میں وارد ہے کہ شیطان آدمی کے دل میں اپنی سونڈ ر کھے رہتا ہے، پس اگر وہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہو تو وہاں سے اپنی سونڈ ہٹالیتا ہے اور اگر آدی اللہ کی یاد سے غافل ہو تو اس کا دل اپنے منہ میں رکھ لیتا ہے، یعنی اپنے وساوس و خیالات دل میں بھر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلئے ہر مسلمان کو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے رہنا چاہئے ، اور ہماری زبانیں اٹھتے بیٹھتے اور چلتے اللہ تعالی کے مبارک ذکر میں تر رہنی چاہیئے ۔ ایک شخص نے پیغمبر اے کے پاس آکر عرض کیا کہ حضرت دین کے بہت سے مسائل میرے ساباد منے آچکے ، اب کوئی ایسی بات مجھے بتادیجئے جس پر میں مضبوطی بڑا سے عمل پیرا ہو سکوں تو نبی اکرم اے نے اس کو نصیحت فرمائی کہ کریم کی تلاوت یا دینی کتابوں کے مطالعہ وغیرہ میں لگا کر کار آمد کے بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہو گا جب ہمیں آخرت اس کی زندگی کی فکر ہوگی ، اور دنیا کی نام نہا دلذت کوشیوں کے مقابلہ میں آخرت کی راحتوں کے حصول کا داعیہ دل میں ہوگا۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شیطان لعین پوری انسانیت کا دشمن ہے، وہ ہمیں ہمارے رب سے دور کر کے اس کی رحمت سے محروم کر دیتا چاہتا ہے ، اس کی یہ سازش اس وقت نا کام ہو گی جب ہم کثرت سے اللہ کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغول رہیں۔
ذکر اللہ ہی شیطان کے مقابلہ کے لئے تیر ہدف نسخہ ہے، ذکر ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے اس سے ہرگز غفلت نہ برتی چاہئے ، اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرمایا الذين امنوا و لمن قلوبهم بذكر الله ط الا بذكر الله من القلوب وه لوگ جو ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمنان ہوتا ہے، خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دل کو اطمینان ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں اور ذکر کی حلاوت اور برکات سے بہت سے احادیث شریفہ میں کثرت سے ذکر واذکار کر نے فضائل اور ترغیبات وارد ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذکر کا قدر فائدہ ہے کہ زبان سے اس کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی بعض روایات میں ہے کہ اہل جنت کو کو اگر کوئی غم ہو گا تو صرف یہ ہو گا کہ دنیا میں خالی لمحات ذکر سے خالی کیوں گزر گئے ، وہاں جب ایک ایک مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لله کہنے کا عظیم تو اب نظر آئے گا جب اس کی قدر معلوم ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ مگر افسوس کا مقام ہے ہم اپنے بیشتر اوقات فضول اور لغو گفتگو ، جھک بازیوں اور واہیات مشاغل میں ضائع کر دیتے ہیں اور ہمیں ان عظیم نقصانات کا احساس تک نہیں ہوتا ، بالخصوص سفر کے دوران ٹائم پاس کرنے کے بہانے سے یا تو مخرب اخلاق ناولوں اور میگزینوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے، یا گانے وغیرہ سن کر اوقات کو بر کیا جاتا ہے، اسی طرح آج کی نوجوان نسل رات کا ایک بہت حصہ سیل و فون میں اور دوستوں سے غیر ضروری باتیں کر کے گزار دیتے ہیں حالاں کہ ان خالی اوقات کو تسبیحات یا قرآن کی تلاوت میں گز از سکتے ہے اللہ تعالی ہم کو صیح علم اور علم کی تو فیق عطا فرمائیں۔ آمین