نفرت، انتقام اور عدم برداشت، مسلم معاشرہ کے لئے نقصاندہ: مولانا ممشاد پاشاہ

نفرت، انتقام اور عدم برداشت، مسلم معاشرہ کے لئے نقصاندہ: مولانا ممشاد پاشاہ

حیدرآباد : آج انسان مادی ترقی کی انتہا تک پہنچ چکا ہے، اس کے باوجود معاشرے میں انتقام، نفرت اور عدم برداشت جیسے رجحانات میں شدت سے اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی ایک خطرناک شکل قتل ہے، جو ہمارے معاشرے میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ نہ صرف ایک سنجیدہ سماجی مسئلہ ہے بلکہ یہ انسانی جان کے تقدس کی پامالی بھی ہے۔روزانہ اخبارات، نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر قتل جیسے واقعات کی خبریں عام ہو گئی ہیں۔ کبھی جائیداد کے جھگڑوں پر، کبھی عزت کے نام پر، کبھی سیاسی و ذاتی دشمنی، تو کبھی معمولی بحث و تکرار پر انسان انسان کا خون بہا رہا ہے۔یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ سماجی و اخلاقی زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔قتل کے واقعات صرف ایک فرد یا خاندان کو نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو عدم تحفظ، خوف، بداعتمادی، اور نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بچوں، عورتوں اور بزرگوں میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔

یہ فضا نہ صرف معاشرتی توازن کو بگاڑتی ہے بلکہ معاشی، تعلیمی اور سماجی ترقی کو بھی شدید متاثر کرتی ہے۔معاشرے میں قتل کا بڑھتا ہوا رجحان ایک نہایت خطرناک علامت ہے، جو نہ صرف امن و امان کو تباہ کر رہا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں خوف، بے یقینی اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر رہا ہے۔ روزانہ کہیں نہ کہیں کسی بے گناہ انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، اور مجرم دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں،یہ صورتحال اس بات کی شدید متقاضی ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مسئلے پر فوری، سنجیدہ اور سخت ایکشن لیں۔

نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانی جان، مال، عزت، اور حقوق کی حفاظت کو بنیادی اصول قرار دیتا ہے۔

قتلِ نفس، یعنی کسی بے گناہ انسان کو ناحق قتل کرنا، اسلام میں کبیرہ گناہ اور انسانیت کے خلاف سنگین جرم شمار کیا گیا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اس جرم کی شدید مذمت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ میں فرمایا، جس نے کسی ایک جان کو ناحق قتل کیا، گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔یہ آیت کریمہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسانی جان کی حرمت اتنی عظیم ہے کہ ایک بے گناہ فرد کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔اور سورۂ میں فرمایا گیا،اور جو کوئی کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔

یہ آیت عمدًا قتل کرنے والے کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے کی وعید سنا رہی ہے، جو اس گناہ کی شدت اور سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔حدیث شریف میں آیا کہ دنیا کا ختم ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔یعنی ایک مسلمان کی جان کی قدر و قیمت اللہ کے نزدیک پوری دنیا سے زیادہ ہے۔حدیث قدسی میں ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں آدھے لفظ کے برابر بھی مدد کرے گا، قیامت کے دن اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا: اللہ کی رحمت سے مایوس۔اسلام صرف مسلمانوں کی جان ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی جان کو محترم سمجھتا ہے۔

اگر کوئی غیر مسلم بھی معاہد یا بے گناہ ہو، تو اس کے قتل کی بھی سخت وعید آئی ہے،جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔معاشرے میں قتل و غارت کے بڑھتے ہوئے رجحانات قرآن و سنت کی تعلیمات سے مکمل انحراف کی علامت ہیں۔قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہیں،قانون کے کمزور نفاذکی وجہ سے مجرموں کو بروقت سزا نہ ملنا،اخلاقی تربیت کی کمی کی وجہ سے دین و اخلاق سے دوری،معاشی مسائل اور بیروزگاری کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور اضطراب،انتقامی ذہنیت کا فروغ جس کی وجہ سے برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا اور میڈیا کا منفی کردارجس کی وجہ سے تشدد کو معمولی سمجھنا۔

قتل کی وارداتوں کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ قانون کی سختی سے عملداری ہو اور قاتل کو فوری اور عبرتناک سزا دی جائے،اسکول، کالج، گھروں اور مساجد میں تربیت کا نظام ہو، بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف اقدامات کئے جائیں، انسانیت کو اہمیت دی جائے اور سوشیل میڈیا اور میڈیا پر قتل کو سنسنی کے بجائے جرم کی حیثیت سے دکھایا جائے۔ قتل جیسے جرائم کے لیے غیر متزلزل اور سخت قوانین کا اطلاق ضروری ہے تاکہ کوئی بھی شخص ایسی جرات نہ کرسکے، مجرموں کو جلد سزا نہ ملنے سے جرأت بڑھتی ہے۔

اگر قاتل کو فوری اور عبرتناک سزا ملے، تو دوسروں کے لیے سبق بنے گا،اکثر قاتل بااثر ہوتے ہیں اور سزا سے بچ نکلتے ہیں۔ اس کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہ قتل ایک ایسا سنگین جرم ہے جس پر نرم رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اگر حکومت، عدلیہ، پولیس اور معاشرہ سنجیدہ اقدامات نہیں کریں گے تو انسانی جان کی حرمت پامال ہوتی رہے گی، اور ہم ایک جنگل نما معاشرہ بن کر رہ جائیں گے۔

لہٰذا قتل کی وارداتوں پر فوری اور سخت ترین ایکشن ہی ملک و ملت کی سلامتی، امن، اور ترقی کی ضمانت ہے۔ قتل جیسے سنگین جرم کا بڑھ جانا ایک قومی سانحہ ہے۔ اس کے خلاف حکومت، عوام، علما، تعلیمی ادارے، میڈیا اور سماجی تنظیموں کو مل کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ یہ ناسور معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دے گا۔ہمیں انسانی جان کی حرمت کا شعور اجاگر کرنا ہوگا اور ایک پرامن، محفوظ اور مہذب معاشرہ تشکیل دینے کی طرف بڑھنا ہوگا۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے