سری نگر: مشہور سیاحتی مقام پہلگام کی بیسرین وادی میں ایک ماہ قبل پیش آنے والے سانحے کے بعد بھی وادی کشمیر کے تمام سیاحتی مقامات جہاں ان دنوں مقامی و غیر مقامی سیاحوں کا ہجوم ہوتا تھا، بے رونق اور سنساں پڑے ہیں یہاں تک کہ سری نگر میں واقع تاریخی مغل باغات میں بھی معمول کی چہل پہل اور رش و رونق مفقود ہے۔
سری نگر کے نشاط باغ میں تعینات ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا کہ رواں سال کے آغاز میں کشمیر میں سیاحت کا رجحان انتہائی حوصلہ افزا تھا۔ ان کے مطابق نشاط باغ کا سال 2025 کا ٹھیکہ ساڑھے چار کروڑ روپے میں ایک نجی کمپنی کو دیا گیا، جو کہ ایک ریکارڈ سمجھا جا رہا تھا۔
موصوف عہدیدار کے مطابق’رواں سال کے پہلے چار مہینوں میں یومیہ آٹھ سے دس ہزار سیاح نشاط باغ کی سیر کو آتے تھے۔ باغات میں رش،جوش و خروش اور رونقیں تھیں، لیکن پہلگام حملے نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔ اب یہاں روزانہ صرف تین سے چار سو مقامی لوگ ہی آ رہے ہیں۔ غیر ملکی یا بیرونی ریاستوں کے سیاح مکمل طور پر غائب ہیں۔‘
نشاط باغ کی طرح سری نگر کے دیگر مغل باغات، جیسے شالیمار، چشمہ شاہی اور ہارون باغ میں بھی ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ ہر سال گرمیوں کے سیزن میں یہ باغات سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے تھے، مگر اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے۔
ادھر وادی میں سیاحوں کی دلچسپی کا ایک اور مرکز جھیل ڈل میں بھی سناٹا ہی چھایا ہوا ہے۔
شکارا چلانے والوں کا کہنا ہے ’ ہم پورا دن بیٹھے رہتے ہیں، کوئی سواری نہیں آتی، پہلگام واقعے سے پہلے کم سے کم دن بھر شکارا چلا کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے تھے لیکن اب نوبت فاقوں تک آپہنچی ہے۔‘
سیاحت سے وابستہ افراد، ٹور آپریٹرز، شکارا یونینز اور ہوٹل مالکان نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کا نوٹس لے کر فوری عملی اقدامات کرے تاکہ بچا کھچا سیاحتی سیزن مکمل طور پر برباد نہ ہو جائے۔
سیاحتی امور سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی و مرکزی حکومت کو مشترکہ طور پر ایک بھرپور اعتماد سازی مہم شروع کرنی چاہیے، جس میں یہ باور کرایا جائے کہ کشمیر سیاحوں کے لیے محفوظ ہے اور یہاں کے لوگ ان کے خیرمقدم کے لیے تیار ہیں۔
جاری۔