حیدرآباد: دنیا بھر میں آپ نے مرد قصائیوں کو کام کرتے دیکھا ہوگا، لیکن آج ہم آپ کی ملاقات ایک منفرد اور باہمت خاتون سے کرواتے ہیں — عنایہ قصائی والی۔ عنایا وہ خاتون ہیں جنہوں نے معاشرتی روایات اور صنفی تعصبات کو پس پشت ڈال کر قصائی کا پیشہ اختیار کیا اور آج وہ نہ صرف جانور ذبح کرنے کا کام خود کرتی ہیں بلکہ اس شعبہ میں اپنی پہچان بھی بنا چکی ہیں۔
عنایہ کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن ہی سے ذبح کرنے کے عمل سے دلچسپی تھی۔ جب وہ دیکھتی تھیں کہ کوئی بکرے یا مرغی کو ذبح کر رہا ہے تو ان کے دل میں خواہش جاگتی تھی کہ وہ بھی یہ عمل انجام دیں لیکن معاشرتی طور پر یہ تصور عام تھا کہ عورتیں ذبح نہیں کر سکتیں۔
عنایا بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں چھری ہاتھ میں لینے سے روکتی تھیں، لیکن شوق نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ انہوں نے اس معاملے میں تحقیق شروع کی — کتابوں سے، گوگل سے، مختلف علما سے سوالات کئے۔ ان کی جستجو کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں علما کی جانب سے اجازت مل گئی کہ عورت شرعی طور پر جانور ذبح کر سکتی ہے بشرطیکہ شرائط پوری کی جائیں۔
جب انہیں شرعی لحاظ سے اطمینان حاصل ہو گیا، تو انہوں نے اس عمل کو باقاعدہ طور پر انجام دینا شروع کر دیا۔
عنایا ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ بازار سے مرغی لینے گئیں، لیکن انہیں شک ہوا کہ دکاندار نے تکبیر نہیں پڑھی۔ اس پر انہوں نے اپنے شوہر سے بات کی تو ان کے شوہر نے کہا، "تم خود ہی ذبح کیا کرو۔” اس دن کے بعد سے انہوں نے خود ہی جانور ذبح کرنا شروع کر دیا۔
عنایا قصائی والی آج خواتین کے لیے ایک مثال بن چکی ہیں کہ اگر نیت صاف ہو اور معلومات مکمل ہوں تو کوئی بھی کام، خواہ وہ مردوں کا سمجھا جاتا ہو، عورت بھی بخوبی انجام دے سکتی ہے۔