ممبئی: ممبئی میں کووڈ19 کے کیسس میں اضافہ کے پیش نظر بی ایم سی نے مریضوں کی نگرانی میں شدت اختیار کردی ہے تاکہ وبا کی صورت حال پر قابو پایا جا سکے۔بی ایم سی نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کووڈ19 کے علاوہ انفلوئنزا جیسی بیماری اور شدید سانس کی بیماری کی بھی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے۔
مشتبہ افراد کے ٹسٹ کیے جا رہے ہیں اور مثبت کیسس کو قواعد و ضوابط کے مطابق علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ مثبت نمونوں کی جینوم سیکوینسنگ کی مدد سے وائرس کی مختلف اقسام کی شناخت‘اس کی منتقلی کے راستے معلوم کرنے اور مؤثر علاج کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔
شہر بھر کی صحت کی صورت ِ حال پر محکمہ صحت مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور کئی کیسس میں ایچ 3این 2 وائرس کے ساتھ مشترکہ انفیکشن کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈیتھ آڈٹ کمیٹی اموات کی تفصیلی جانچ کر رہی ہے۔ فعال کیسس کی تعداد کم ہے مگر احتیاطی تدابیر کے تحت جینوم سیکوینسنگ جاری ہے۔ مہاراشٹر سے مثبت نمونے پونے کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی اور بی جے میڈیکل کالج کو بھیجے جا رہے ہیں۔
ممبئی میں جنوری اور فروری میں ہر ماہ ایک کیس رپورٹ ہوا۔ مارچ میں کوئی کیس نہیں تھاجبکہ اپریل میں 4کیسس سامنے آئے اور مئی میں 120 مریضوں کے ساتھ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ کل تک 2146 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ملک بھر میں 19 مئی 2025 تک 257 فعال کیسس رپورٹ ہوئے جن میں کیرالا میں 69‘ مہاراشٹر میں 44 اور ٹاملناڈو میں 34 کیسس شامل ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی نئے انفیکشن کی رپورٹنگ ہوئی ہے۔
ممبئی کے کے ای ایم ہاسپٹل نے کووڈ سے متعلق 2 اموات کی تصدیق کی ہے۔ ماہرین صحت نے کہا ہے کہ مجموعی صورت ِ حال قابو میں ہے اور کوئی غیر معمولی بحالی نہیں دیکھی گئی۔ بہتر نگرانی‘ فوری شناخت اور ردعمل کے نظام قائم کیے گئے ہیں۔جے این 1 ویرینٹ اومیکرون ویرینٹ کی ایک نئی شکل ہے جو زیادہ متعدی ہے اور اس میں اسپائیک پروٹین میں تبدیلی پائی جاتی ہے۔
ہلکی یا معتدل بیماری ایک سے 2 ہفتے تک رہتی ہے جبکہ شدید صورتوں میں مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ بعض افراد بغیر علامات کے بھی وائرس لے کر چلتے ہیں۔ سنگاپور میں کیسس میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ہانگ کانگ میں کووڈ سے متعلق اموات ایک سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہندوستانیوں کو حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا چاہیے خاص طور پر زیادہ خطرہ والے علاقوں میں۔ موجودہ اعداد و شمار کم ہیں لیکن نئی لہر کو روکنے کے لیے نگرانی‘ ویکسینیشن اور حفظان صحت کے اقدامات ضروری ہیں۔