سونی پت (ہریانہ) (پی ٹی آئی) اشوکا یونیورسٹی کے صدرشعبہ سیاسیات (پولیٹکل سائنس) علی خان محمود آباد کو اتوار کے دن گرفتار کرلیا گیا۔ آپریشن سندور کے تعلق سے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعہ اُن کے خلاف ملک کے اقتدار اعلیٰ اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے کا الزام ہے۔
پولیس اور اُن کے وکیل نے یہ بات بتائی۔ چند دن قبل ہریانہ کے ریاستی کمیشن برائے خواتین نے اسسٹنٹ پروفیسر کو نوٹس بھیجی تھی اور اُن کے ریمارکس پر سوال اُٹھایا تھا۔ علی خان نے کہا تھا کہ اُن کی بات کا غلط مطلب نکالا گیا۔ اُنہوں نے زوردے کر کہا تھا کہ اُنہوں نے اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کا استعمال کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر پولیس رائے اجیت سنگھ نے فون پر بتایاکہ علی خان محمود آباد کو دہلی میں گرفتار کرلیا گیا۔
اُنہوں نے کہاکہ گرفتاری آپریشن سندور کے تعلق سے اُن کے کسی تبصرہ کے سلسلہ میں ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر پولیس نریندرقادیان نے کہاکہ سونی پت کے رائے پور پولیس اسٹیشن میں دو ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ ایک ایف آئی آر صدرنشین ہریانہ اسٹیٹ کمیشن فار ویمن رینو بھاٹیہ کی شکایت پراور دوسری ایک گاؤں کے سرپنچ کی شکایت پر درج ہوئی۔
رینوبھاٹیہ کی شکایت پر اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان کے خلاف بی این ایس کی دفعات 152(ملک کے اقتدار اعلیٰ یا اتحاد اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنا) اور 196 (1) (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروپس میں دشمنی پیدا کرنا) لگائی گئیں۔ پروفیسر کو آج گرفتار کرلیا گیا۔ رائے پور پولیس اسٹیشن میں دو ایف آئی آر درج ہوئی تھیں۔
خواتین کمیشن کی شکایت کی بنیاد پر پروفیسر کو ریمانڈ میں لیا گیا۔ ڈی سی پی اور پروفیسر کے وکیل کپل بالیان کے بموجب دوسری شکایت مقامی سرپنچ نے ہفتہ کے دن درج کرائی تھی۔ وکیل نے دعویٰ کیا کہ سرپنچ بی جے پی یووا مورچہ کے ریاستی یونٹ سے جڑا ہے۔
کیس ہفتہ کے دن درج ہوا اور اگلی صبح پروفیسر کو دہلی میں گرفتار کرلیا گیا۔ کوئی نوٹس نہیں دی گئی اور پولیس نے پروفیسر کو پکڑلیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس سرپنچ کی شکایت پر درج ہوا جو دفعات لگائی گئی وہ سبھی ناقابل ضمانت ہیں۔ اشوکا یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہاکہ وہ کیس کی تفصیلات اکھٹا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ پولیس اور مقامی حکام سے تحقیقات کے سلسلہ میں تعاون کرے گی۔
یونیورسٹی نے کہاکہ ہمیں بتایاگیا ہے کہ پروفیسر علی خان محمود آباد کو آج صبح پولیس نے حراست میں لے لیا۔ یونیورسٹی تحقیقات میں مکمل ہاتھ بٹائے گی۔ سی پی آئی ایم اور ترنمول کانگریس نے گرفتاری کی مذمت کی۔ سی پی آئی ایم نے کہاکہ ہم سوشل میڈیا پوسٹ کیلئے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔
وجئے شاہ (مدھیہ پردیش کا وزیر) جیسے نفرت بھڑکانے والے آزاد گھوم رہے ہیں اور انصاف اور امن کا مطالبہ کرنے والوں کو مودی کے انڈیا میں نشانہ بنایاجارہا ہے۔ ٹی ایم سی قائد مہوہ موئترا نے کہاکہ وہ اس گرفتاری کے خلاف عدالت جائیں گی۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے ایکس پر کہاکہ ایک بی جے پی ورکر کی شکایت پر ہریانہ پولیس حرکت میں آگئی۔ اسوسی ایٹ پروفیسر نے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی میڈیا بریفنگس کو ”optics” قراردیا تھا اور کہا تھا کہ اِسے زمین پر حقیقت میں بدلنا ہوگا ورنہ یہ صرف منافقت ہوگی۔