موتیوں کے شہر میں ملکۂ حُسن کا مقابلہ، حُسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لئے

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
حیدرآباد میں جب بھی کوئی بڑا یونٹ ہوتا ہے تو بیشمار گوشوں سے تنقید کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تنقید جائز ہے یا نہیں یہ دیکھا نہیں جاتا بس جو دل میں آئے وہ بیان سامنے آجاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ حُسن کے عالمی مقابلے کے لئے آئے ہوئی حسیناؤں سے متعلق مختلف پروگراموں پر ہورہا ہے۔
قارئین جانتے ہیں کہ یہ عالمی تقریب صرف خوبصورتی کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان اور خاص طورپر تلنگانہ کی نئی نویلی ریاستی ثقافت ، مہمان نوازی اور مختلف شعبوں میں اس کی ترقی کو عالمی سطح پر روشناس کروانے کا ایک منفرد موقع ہے۔
13؍مئی کو چارمینار کے دامن میں جب 116 ممالک کی حسینائیں پہنچیں تو تہوار جیسا زبردست منظر وہاں پر دکھائی دینے لگا۔ شہر کے اس علاقہ کو اتنے بڑے ایونٹ سے جوڑا گیا جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ پچھلے دنوں حسیناؤں کا یہ قافلہ پوچم پلی، یادادری اور بھونگیر پہنچا اور اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ہینڈلوم کی بستیوں کا دورہ کیا۔ جہاں پر روایتی بُنائی کے طور طریقے ابھی بھی زندہ ہیں۔
یہاں پر حسیناؤں کے پاؤں دھونے کو لے کر ایک زبردست نزاعی مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ اپوزیشن قائدین نے اس واقعہ کو تلنگانہ کی خواتین کی توہین سے تعبیر کیا۔ ہر مسئلہ کو لے کر سوشیل میڈیا پر ویڈیوز جاری کردیئے جاتے ہیں حالانکہ بات بہت ہی معمولی ہوتی ہے۔ اسپیشل چیف سکریٹری جیش رنجن نے کہا کہ ایسے مسئلوں پر ہم جواب دینے کے لئے وقت ضائع نہیں کرسکتے۔
چارمینار کے علاوہ لاڈ بازار کے علاقہ میں جب یہ حسینائیں پہنچیں تو وہاں پر بیوپاریوں کے علاوہ عام لوگوں نے ان کا پُرجوش استقبال کیا اور وہ سارے عالم کے حُسن کو ایک جگہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ بہرحال 5؍مئی کو تلنگانہ کی سرزمین پر پہنچنے والی یہ حسینائیں اپنے آپ کو مختلف پروگراموں میں مصروف رکھی ہوئی ہیں۔ اب تک انہوں نے روحانی دورہ ہیرٹیج واک ، ہینڈلوم مصنوعات کا نمائشی دورہ میں حصہ لیا ۔ 31؍ مئی کو ہائی ٹکس اگزیبیشن سنٹر میں ملائکہ حُسن کا Finale ہوگا۔
ساڑھے پانچ بجے شام سے لے کر یکم جون کی صبح ایک بجے تک یہ رنگ برنگی فائنل پروگرام چلتا رہے گا جس میں Czech Republic کی Krystyna Pyszkováاپنے جانشین کے سر پر تاج پہنائے گی۔ عالمی حسیناؤں کا یہ مقابلہ تلنگانہ کے لئے ایک اعزاز ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ اس سے ریاست کی تہذیب ، تمدن اور آئی ٹی کے علاوہ صحت اور دیگر صنعتوں کی ترقی کی اہمیت اجاگر ہوگی۔
چیف منسٹر اے ریونت ریڈی یقینا ستائش کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں اور کاوشوں کے ذریعہ عالمی مقابلہ حُسن جیسے پُر کشش پروگرام کو اپنی ریاست میں مقرر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ حیدرآباد میں حُسن کی ملکاؤں کو دیکھ کر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے
حُسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لئے
یا پھر ہم یوں بھی ہ سکتے ہیںکہ
الٰہی کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجہ سے لگا لینے کے قابل ہے