نئی دہلی / مظفر نگر (منصف نیوز ڈیسک) ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے ایسا فیصلہ صادر کرتے ہوئے جس کی وجہ سے 2013 کے مظفر نگر فسادات کے کئی متاثرین کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے ہیں، 11 ملزمین کو الزاماتِ منسوبہ سے بَری کردیا، جن پر موضع لساد میں مسلمانوں کے مکانات کو لوٹنے، توڑ پھوڑ کرنے اور نذرِ آتش کرنے کا الزام تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ انھیں خاطی قرار دینے کے لیے ثبوت کافی نہیں تھے۔ 2013ء کے فسادات جو قوال گاؤں سے شروع ہوئے تھے اور تیزی سے قریبی علاقوں تک پھیل گئے تھے، ان میں 60 افراد ہلاک اور مسلم خاندانوں کے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔
اس وقت سے زندہ بچ جانے والے کئی افراد جن میں بیشتر مسلمان ہیں، ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں یا خوف کے مارے دیگر علاقوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ مظفر نگر میں فاسٹ ٹریک عدالت کی جج نے نیہا گرگ نے 8 مئی کو ملزمین کو بَری کردیا۔ انھوں نے مناسب ثبوت پیش کرنے اور قابل اعتبار گواہ پیش کرنے میں استغاثہ کی ناکامی کا حوالہ دیا۔
اس فیصلہ کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں میں برہمی اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے، جن کا یہ ماننا ہے کہ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ کلارین کی اطلاع کے مطابق 11 ملزمین منویر، سبھاش، پپن، نریندر، پرمود، ونود، رام کمار شرما، وجئے شرما، رام کشن، راجندر اور موہت لساد گاؤں کے ساکن ہیں، جو فوگانا پولیس اسٹیشن کے حدود میں واقع ہے۔
ان پر اس گاؤں میں فساد کرنے، آتشزنی اور مسلمانوں کے مکانات کو لوٹ لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ درخواست گزار ضیاء الحق نے فوگانا پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آ ئی آر درج کرائی تھی اور ان 11 افرد کا نام درج کرایا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا تھا کہ ان لوگوں نے ایک ہجوم کی قیادت کی تھی، جس نے گاؤں میں ان کے گھر کے علاوہ دیگر کئی گھروں کو لوٹ لیا تھا اور آگ لگا دی تھی۔
بہرحال آفیسر نریندر شرما کی زیرقیادت استغاثہ عدالت میں مناسب ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا تھا۔ وکیل صفائی یوگیندر شرما نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قابل اعتبار ثبوت اور بھروسہ مند عینی شاہدین کے فقدان کی وجہ سے عدالت کے سامنے ان ملزمین کو بَری کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔