نئی دہلی: سپریم کورٹ نے روہنگیا مسلمانوں کی ملک بدری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزاروں کو سخت تنبیہ دی ہے اور 43 روہنگیا پناہ گزینوں کو جبراً ملک بدر کرنے پر عبوری روک لگانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
جسٹس سوریا کانت کی سربراہی والی بینچ نے سماعت کے دوران کہا:’’آپ ہر روز عدالت میں ایک نئی کہانی لے آتے ہیں۔ ملک اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، اور آپ فرضی بیانیے گھڑ کر عدالت کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔‘‘
عدالت نے درخواست گزاروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی انہیں ان پناہ گزینوں کی حالت زار پر ہمدردی ہے تو وہ عملی میدان میں خود کچھ کریں، صرف درخواستیں دائر کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
’’عرضی میں جن دعوؤں کا ذکر ہے، ان کی بنیاد کیا ہے؟ ہمیں قابلِ اعتبار معلومات اور شواہد پیش کیے جائیں۔ جو باتیں آپ عدالت میں کر رہے ہیں، وہ آپ تک کہاں سے پہنچی ہیں؟‘‘
اس موقع پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل، معروف سماجی کارکن ایڈووکیٹ کولن گونزالویس سے بھی سخت سوالات کیے: ’’آپ جو واقعات سنا رہے ہیں، ان کا کوئی مستند ریکارڈ موجود ہے؟ اگر کوئی پناہ گزین واپس آیا تو وہ کن حالات میں آیا؟ یہ سب تفصیلات کہاں درج ہیں؟‘‘
سپریم کورٹ کے ان ریمارکس سے صاف ظاہر ہے کہ عدالت پناہ گزینوں سے متعلق حساس معاملات میں صرف مصدقہ، مستند اور قانونی بنیادوں پر ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ بغیر شواہد کے داخل کی گئی عرضیاں نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ عدالتی نظام کے وقت اور وقار کا ضیاع بھی ہیں۔