چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
فرقہ پرست اور کمزور طبقات کو نقصان پہنچانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی سرکار کی جانب سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کے فیصلے کے بعد ہم تو یہی کہیں گے کہ ’’راہول گاندھی زندہ باد ‘‘۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی سیاسی سمجھ بوجھ کے ذریعہ سب کے لئے انصاف کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس کے آگے فاشسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی گھٹنوں کے بل آگئی ہے۔ سماجی انصاف کے نعرہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔
کانگریس کے زیراثر تلنگانہ ریاست کی حکومت نے اپنی نئی نویلی اسٹیٹ میں ذات پر مشتمل مردم شماری کرواکر سارے ہندوستان کو یہ پیغام دے دیا کہ آنے والا کل ’’جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی حصہ داری ‘‘کے فلسفہ پر چلے گا۔ اس سے سبھی طبقوں اور برادریوں کو فائدہ پہنچے گا لیکن سب سے زیادہ انصاف کمزور مسلمانوں کے ساتھ ہوگا جنہیں بھارتیہ جنتا پارٹی نے حاشیہ پر لا کھڑا کیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے قومی مردم شماری کے ساتھ ذات پات کی مردم شماری کا جو فیصلہ کیا ہے وہ کسی صاف نیت کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ انتخابی فائدے کی خاطر کیاگیا ہے۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ بہار میں اسمبلی انتخابات اسی سال کے اختتام تک ہونے والے ہیں جس کے ذریعہ وہ انتخابات میں مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بہار میں نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو کمزور ہو چلی ہے اس کا مسلم اور کمزور طبقوں کا ووٹ بینک کانگریس کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔
اس نقصان کی پابجائی کرنے کے لئے یہ فیصلہ شائد ہی فائدہ بخش ہوگا۔ اس فیصلہ سے ویسے تو سب ہی خوش ہیں لیکن راہول گاندھی سب سے زیادہ مسرو ر ہیں کیونکہ انہوں نے اس مسئلہ کو ایک قومی مسئلہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ قومی سطح پر ذات پات کی مردم شماری پہلی بار ہورہی ہے ۔ سال 2010 میں وزیراعظم آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے لوک سبھا میں یقین دہانی کرائی تھی کہ ذات پات کی مردم شماری یقینا کروائی جائے گی۔ اس وقت ایک سروے بھی کروایا گیا تھا۔
قومی مردم شماری دستور کے آرٹیکل 246 کے تحت ہوتی ہے۔ یہ ایک مرکزی موضوع ہے لیکن ذات پات کی مردم شماری کئی ریاستوں میں اپنے طورپر کروائی گئی ہے۔ خصوصاً تلنگانہ میں کروائے گئے سروے کو انتہائی سائنٹفک قرار دیا گیا۔ مرکزی کابینہ نے سروے کا فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن اس کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا۔ سال 2011ء میں جو گنتی کی گئی تھی اس کے اعداد وشمار بھی مرکزی حکومت نے شائع نہیں کئے۔
سال 2021ء میں مردم شماری ہونی چاہئے تھی لیکن کوویڈ کے سبب اُسے بھی ملتوی کردیا گیا تھا۔ آزادی سے قبل سال 1931ء میں ہندوستان میں ذات پات پر مشتمل مردم شماری کروائی گئی تھی لیکن اس میں بھی دوسری ذاتوں کی گنتی نہیں کروائی گئی۔ تعلیم اور ملازمتوں کے لئے جو ریزرویشنس چل رہے ہیں وہ دراصل برطانوی سامراج کے دور کے ہیں۔ مرکزی سرکار کے ایک نمائندہ کا کہنا ہے کہ آبادی کے اگلے سروے میں Digital Method کا استعمال ہوگا۔ اس سلسلہ میں ایک سافٹ ویر کی تیاری جاری ہے۔
بہرحال یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا تمام سیاسی جماعتیں خیرمقدم کررہی ہے۔ لوک سبھا میں Leader of Opposition راہول گاندھی نے ’’اچانک کئے گئے اس فیصلہ کا‘‘ استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے ایک وقت مقرر کیا جائے۔ راہول گاندھی نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ تحفظات کی موجودہ مصنوعی 50 فیصد حد کو فی الفور ختم کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کے زبردست دباؤ کی وجہ سے مرکزی حکومت کو یہ فیصلہ لینا پڑا۔ یہ بلا مبالغہ ہمارا ماڈل ہے۔ اس کو ہم نے منتخب کیا اور ہم نے اس کی ایک تاریخ مقرر کی۔
راہول گاندھی کا یہ مطالبہ ہے کہ تلنگانہ میں کئے گئے سروے کی اساس پر مرکزی سروے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام ہماری سرکار نے مشاورت کے ذریعہ انجام دیاہے۔ راہول نے کہا کہ انہیں مرکز کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے بڑی مسرت ہوگی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے دو سالوں سے راہول گاندھی ذات پات کی مردم شماری کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ، ان کا یہ احساس ہے کہ تحفظات کی 50 فیصد حد کمزور طبقوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے ۔ Leader of Opposition یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آبادی کہ 90 فیصد کمزور عوام کو اقتدار کے ڈھانچے میں کس طرح سے رکھا جائے گا کیونکہ ہم انہیں حاکم بنانا چاہتے ہیں۔
مرکز کے اس فیصلہ نے کانگریس کے کارکنوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا ہے۔ انہیں اب کسی بھی حالت میں پیچھے نہیں دیکھنا ہے بلکہ سنسیس کی تیاری میں مشغول ہوجانا چاہئے اور پسماندہ لوگوں کو اس سروے سے جوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہئے تاکہ انتہائی کامیاب نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ کوشش اس بات کی ، کی جانی چاہئے کہ ایک ایک فرد رائے شماری میں تقدس کے ساتھ شامل ہو ۔ اگر وہ کسی بھی قسم کی لاپرواہی کرتے ہیں تو وہ سنسیس کے فائدوں سے محروم ہوجائیں گے۔ بہرحال راہول گاندھی کی محنت رنگ لائی اور اب بقول مخدوم یہی کہنا پڑے گا کہ
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو