شراؤستی ضلع میں 57 مدارس مہر بند، اقلیتی حلقوں میں بے چینی

حیدرآباد: اتر پردیش حکومت نے شراؤستی ضلع میں 57 مدارس کو’غیر قانونی اور غیرمسلمہ‘ قرار دے کرمہر بند کر دیا ہے۔ یہ کارروائی انتظامیہ کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے انجام دی گئی ہے جس کے بعد مسلم برادری میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی ہے اور ماہرین تعلیم وحقوق انسانی کے کارکنوں نے اس پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا۔
کلارین کی رپورٹ کے مطابق شراؤستی کی ایکونہ اور جمنہا تحصیلوں میں حالیہ کارروائی کے دوران 13 مدارس کو تالے لگا دیے گئے۔ حکام کا الزام ہے کہ ان میں سے کئی مدارس سرکاری زمین پر قائم کیے گئے تھے۔مقفل کردہ اداروں میں جامعہ نوریہ فاطمہ للبنات بھی شامل ہے جو 2019 سیکارکرد تھا۔
چھاپے کے وقت ادارہ خالی تھا مگر اس میں تقریباً 300 طالبات زیرتعلیم تھیں۔ انتظامیہ کی اطلاع کے بعد طالبات کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔مدرسے کے منتظم سید سراج الدین ہاشمی نے جو گجرات کے متوطن ہیں صحافیوں کو بتایا”ہمیں 10 مئی تک مدرسہ خالی کرنے کو کہا گیا۔
یہ ادارہ غریب لڑکیوں کو غذا، قیام کی سہولت کے ساتھ دینی تعلیم فراہم کرتا تھا۔ کیا آج کے بھارت میں تعلیم کی یہی تعریف ہے؟“ ایس ڈی ایم، نائب تحصیلدار اور بلاک ایجوکیشن آفیسر پر مشتمل مشترکہ انتظامی ٹیم نے مسددوی کی کارروائی کو انجام دیا۔مقامی مدرس کے مطابق ”بچے یہاں پرامن طریقے سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اگر کوئی کمی تھی تو اسے درست کیا جا سکتا تھا،مہر بندکرنا حل نہیں۔“
یہ مہم صرف شراؤستی تک محدود نہیں رہی۔ پڑوسی ضلع مہاراج گنج میں بھی خاص طور پر نیپال سرحد سے ملحق نوٹنوا تحصیل میں 6 مدارس کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ضلع اقلیتی بہبود افسر نیرج اگروال نے ان مدارس کو تین دن میں یہ وضاحت دینے کو کہا ہے کہ وہ کیسے چلائے جاررہے ہیں اور ان کی مالی معاونت کہاں سے آتی ہے۔
جن مدارس کو نوٹس دیے گئے ان میں مدرسہ غوثیہ رضویہ اہلِ سنت ضیاء العلوم، پڈولی‘ مدرسہ اصلاح المسلمین، جھنگٹھی‘ مدرسہ عربیہ نور العلوم، عراضی مہوا‘ عربیہ محمد مصباح العلوم، پرسا‘ مکتب تعلیمی قرآن، بگھااور مدرسہ یار علویہ اہلِ سنت فیض العلوم شامل ہیں۔نیرج اگروال نے کہا”ہم صاف ہدایات کے تحت کارروائی کر رہے ہیں۔ بغیر قانونی دستاویزات کے چلنے والے مدارس کو زمین و مالیات سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنی ہوں گی۔“ مقامی مسلم طبقہ اس اچانک کارروائی کو جانبدارانہ اور غیر منصفانہ سمجھ رہا ہے۔
لکھنؤ کے معروف اسلامی اسکالر مولانا رشید قاسمی نے کہا ”اگر حکومت واقعی تعلیم میں شفافیت چاہتی ہے تو صرف مسلم اداروں کو ہی نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ یہ اصلاح نہیں، اذیت رسانی معلوم ہوتی ہے۔“آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نمائندے نے کہا”ان مدارس پر غریب بچوں، خاص کر لڑکیوں، کا انحصار تھا۔ اگر کوئی خامی تھی تو مکالمے سے دور کی جا سکتی تھی، تالے لگا دینا حل نہیں۔“شہری حقوق کے علمبردار شاہد انور نے کہا”یہ رجحان تشویش ناک ہے۔ مدارس نے ہمیشہ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی کردار ادا کیا ہے۔
انہیں متبادل دیے بغیر بند کرنا تعلیم کے حق پر حملہ ہے۔جہاں حکومت اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے، وہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مہم یک طرفہ اور سیاسی مقاصد پر مبنی لگتی ہے۔متاثرہ مدارس میں زیر تعلیم بچوں کے والدین شدید پریشان ہیں۔ روبینہ بیگم نے جن کی بیٹی جامعہ نوریہ فاطمہ میں پڑھتی تھی کہا”ہم غریب لوگ ہیں، نجی اسکول کا خرچ نہیں اٹھا سکتے، اب کیا کریں؟“یہ نئی کارروائی اس وقت سامنے آئی ہے جب اس سے قبل اعظم گڑھ، بجنور اور دیگر اضلاع میں بھی ایسی ہی کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔
ابھی تک سرکاری سطح پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہمقفلشدہ مدارس کے طلبہ کا کیا ہوگاآ یا انہیں دیگر اداروں میں منتقل کرنے کی کوئی کوشش کی جائے گی یا نہیں۔متاثرہ اضلاع میں فضا کشیدہ ہے اور اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ مہم مزید اضلاع تک پھیل سکتی ہے۔اسی دوران مسلم دانشوروں اور حقوقِ اقلیت کی تنظیموں نے ریاستی پالیسی پر فوری نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے اور عدالتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم اداروں کو نشانہ بنانے کے اس سلسلے کو روکے۔