مزاحمت باقی رہے گی، ہم ہرگز ہتھیار نہیں ڈالیں گے، شیخ نعیم قاسم

مزاحمت باقی رہے گی، ہم ہرگز ہتھیار نہیں ڈالیں گے، شیخ نعیم قاسم

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے مزاحمت کی پچیسویں سالگرہ اور سنہ دوہزار میں جنوبی لبنان کی صیہونی رژیم کے ظلم و ستم سے آزادی کے موقع پر خطاب کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ یوم مزاحمت و آزادی نے لبنان کو خطے اور عالمی سطح پر سربلند رکھا ہے، اس دن نے لبنان کو کمزوری کی حالت سے طاقت کی طرف منتقل کیا اور لبنانیوں کو عزت، وقار اور خودمختاری کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل بنایا۔ 

مزاحمت کا ظہور ایک قابل فخر قوم کے لیے بہت فطری تھا جو ذلت، قبضے اور اسرائیلی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو قبول نہیں کرے گی۔

 انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمت 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں آگے بڑھنے لگی اور امام موسیٰ صدر نے مزاحمت کے امام کی حیثیت سے تحریک محرومین کی بنیاد رکھی۔ 

1978 میں قرارداد 425 جاری کی گئی جس میں اسرائیل سے لبنانی سرزمین سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا، لیکن اسرائیل نے اپنی نگرانی میں جو اس وقت "آزاد لبنانی حکومت” کہلاتی تھی، کٹھ پتلی حکومت قائم کی اور یہ لبنان کے ایک حصے کی علیحدگی اور صیہونی بستیوں کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ 

1982 کے حملے کے بعد اسرائیل لبنان کی سرزمین پر موجود رہا اور اس نے 17 مئی 1983 کے معاہدے کو مسلط کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت شام کے تعاون سے عوامی اور قومی سطح پر حقیقی مزاحمت اسرائیل کو اس ذلت آمیز معاہدے کو انجام دینے سے روکنے میں کامیاب رہی۔

 شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ 1985 میں، اسرائیل مزاحمت کے تابڑ توڑ حملوں کے باعث پیچھے ہٹ گیا جسے اس وقت مقبوضہ سرحدی پٹی کہا جاتا تھا، جو کہ لبنان کے 11 فیصد رقبے کے برابر ہے۔ 1985 سے 2000 تک سرحدی پٹی اسرائیلی دشمن کے قبضے میں رہی اور اس محاذ آرائی کا اصل موضوع مزاحمت تھا۔ 1978 سے، اقوام متحدہ کی قرارداد 425 کے مطابق، اسرائیل لبنانی سرزمین سے دستبردار نہیں ہو، اس لیے مزاحمتی کارروائی کو جاری رکھنا پڑا اور قربانیاں دی گئیں۔ 1999 سے اسرائیلی وزرائے اعظم لبنان سے دستبرداری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے۔ انہوں نے لبنان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ انہوں نے شام کے ذریعے بھی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہے۔

 حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اسرائیلیوں نے متوقع تاریخ سے پہلے ہی لبنان کی سرزمین چھوڑ دی، اور ہم 25 مئی 2000 کو یوم مزاحمت اور آزادی کا اعلان کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قابض حکومت رات کو لبنان سے نکل گئی اور اپنے کرائے کے فوجیوں کو اطلاع تک نہیں دی۔ 25 مئی 2000 مزاحمتی عوام کے لیے ایک عظیم فتح کا دن تھا، جو جنوبی لبنان سے غیر مشروط انخلاء کے ساتھ اسرائیل کو کچلنے میں کامیاب ہوئے۔ 2000 میں اسرائیل کے انخلاء کے بعد، جنوبی لبنان کو ایک سال کے لیے بین الاقوامی ایمرجنسی فورسز کے بغیر چھوڑ دیا گیا، اور جب وہ اپنی شرائط منوا نہ سکے، تو انھوں نے بین الاقوامی افواج بھیج دیں۔

 انہوں نے کہا کہ قوم کے عظیم شہید سید حسن نصر اللہ ایک درخشاں ستارہ تھے جنہوں نے مزاحمت کو اس کی فتوحات تک پہنچایا۔لبنان کی آزادی سب سے پہلے خدا کے فضل سے ممکن ہوئی، اس کے بعد یہ سہرا امام سید موسیٰ صدر، مزاحمت کے شہید قائدین، شیخ راغب حرب اور سید عباس موسوی اور شہدائے مقاومت کے سردار سید حسن نصر اللہ کے سر جاتا ہے۔ ہمیں مزاحمت کے اس وقت کے صدر جنرل ایمل لغود کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے مزاحمت کی حمایت کی اور اسی طرح سابق وزیر اعظم سلیم الحص کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جو مزاحمت کے ساتھ کھڑے رہے۔ 

شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ لبنانی فوج کے کمانڈر جنرل روڈولف ہیکل کے حالیہ بیان میں حب الوطنی کے جذبے کا اظہار کیا گیا ہے اور ہم فوج، قوم اور مزاحمت کی مساوات پر قائم رہیں گے۔”
 مزاحمت نے لبنان کو کمزور حالت سے مضبوط پوزیشن کی طرف بڑھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اسرائیل کی توسیع پسندی اور لبنان کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ 

مزاحمت جاری ہے جو ایک انتخاب، ایک قوم اور ایک ارادے کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلسطین میں مزاحمت نے ایک انقلاب برپا کیا اور دشمن کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ یہ بہادر اور قابل فخر قوم، جو دشمن کا مقابلہ کرتی ہے، اپنے بچوں کی عزت کا درس دیتی ہے اور ذلت کو قبول کرنے یا ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتی ہے، یقیناً کامیاب ہوگی اور اپنے مقاصد حاصل کرے گی۔ مزاحمت عوام اور اس پر یقین رکھنے والوں کا انتخاب ہے اور رہے گا۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے