درست قدم کیسے بڑھائیں… ہرجندر

امریکی صدر ٹرمپ بار بار کہتے رہے کہ جنگ بندی ان کی ثالثی کی وجہ سے ہوئی ہے، اور ہند-پاک کو راستے پر لانے کے لیے کاروبار کے دباؤ کا استعمال کیا گیا، لیکن پی ایم مودی نے تردید کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔
کُل جماعتی نمائندہ وفد متحدہ عرب امارات میں، تصویر@BansuriSwaraj
اپوزیشن سے تمام تلخیوں کے بعد حکومت نے 33 ممالک میں 7 کُل جماعتی نمائندہ وفود بھیج دیے۔ ہندوستان کے لیے نیک خواہشات۔ اس درمیان ہرجندر نے کچھ سوالات قائم کر زمینی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی۔
1. کُل جماعتی نمائندہ وفود سرحد پار دہشت گردی سے متعلق ہندوستان کے ’قومی اتفاق رائے‘ کو بیرون ممالک میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ آخر یہ اتفاق رائے کیا ہے؟ آپریشن سندور سے پہلے اور بعد میں نام نہاد اتفاق رائے کو قائم کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟
سچ کہیں تو حکومت نے قومی اتفاق رائے کے لیے بہت کم کام کیا۔ اپوزیشن بار بار گزارش کرتا رہا کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے تاکہ ہر کوئی اس عمل میں شامل ہو سکے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی دونوں کُل جماعتی میٹنگوں میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کی صدارت وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کی۔ دفاعی معاملوں کی کابینہ کمیٹی اور فوجی قیادت کے علاوہ انھوں نے کسی سے بھی مشورہ کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس میٹنگ کی ایک ویڈیو ٹی وی چینلوں پر بار بار چلائی جاتی رہی۔
اس کے برعکس 1962 میں چینی حملے کے بعد دورانِ جنگ ہی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، جس میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیا تھا۔ 1965 اور 1971 میں جنگ کے وقت نہ صرف اپوزیشن کو بلکہ حکومت نے مصنفین، شاعروں، صحافیوں، فلمسازوں اور فنکاروں تک کو حالات کی جانکاری دی۔ پہلگام کے بعد ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم نے کُل جماعتی میٹنگ میں شرکت کی جگہ بہار میں انتخابی تشہیر کو ترجیح دی۔ پارلیمانی اجلاس کی گزارش کو سیدھے طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
آپریشن سندور کے بعد وزیر اعظم نے اپنی خاموشی نہیں توڑی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار کہتے رہے کہ جنگ بندی ان کی حکومت کی ثالثی کے سبب ہوئی ہے، اور ہند-پاک کو راہ پر لانے کے لیے کاروبار کے دباؤ کا استعمال کیا۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے اس کی تردید کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ ایسے ہی کئی دیگر بیانات بھی تھے جو حکومت ہند کے لیے پریشانی کا سبب بنے، اور اسے جیسے تیسے اپنا منھ بچانے کی کوشش کرنی پڑی۔
ٹرمپ کے ذریعہ کیے گئے ثالثی کے دعوے کی تردید کرنے کی جگہ تشہیر کی مشینیں انھیں ایسا ہیرو ثابت کرنے میں مصروف رہیں جس نے ایک نئی ’لکشمن ریکھا‘ کھینچ دی ہے۔ اسکولی بستوں سے لے کر ریلوے ٹکٹ تک ہر جگہ ان کی تصویریں چھاپی جانے لگیں۔ دنیا کے سامنے آپ جو قومی اتفاق رائے پیش کر سکتے ہیں، اس کا یہ مناسب طریقہ نہیں ہے۔
2. یہاں تک کہ نمائندہ وفود میں جو غیر بی جے پی لیڈران شامل کیے گئے، وہ بھی بی جے پی نے منتخب کیے، جس کے لیے ان کی پارٹیوں سے بھی مشورہ نہیں لیا گیا۔ اس سے حکومت کی کون سی نیت ظاہر ہوتی ہے؟
قومی پارٹیوں سے مشورہ کرنے میں حکومت کا کچھ نہیں جاتا۔ صرف 6 ایسی پارٹیاں ہیں جن سے مشورہ کر کے یہ اراکین منتخب کیے جا سکتے تھے۔ ایسے وقت میں جب بیرون ممالک میں پیش کرنے کے لیے قومی کی ایک متفقہ رائے کی ضرورت تھی، یہ عدم اعتماد ہی ظاہر کرتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی کہ حکومت نے یہ نام کیسے طے کیے۔ اس میں حکومت کی منشا واضح نظر آ رہی تھی اور یہ پوری طرح سیاست سے متاثر تھا۔
3. ان نمائندہ وفود کو بھیجنے کا پورا طیقہ کیا یہ کہتا ہے کہ ہندوستان اس معاملے میں سفارتی طور پر الگ تھلگ پڑ چکا ہے؟ پہلگام کے بعد ہندوستان نے جو جارحانہ رخ اختیار کیا، اس پر سیکورٹی کونسل کے 5 مستقل اراکین ممالک کا کیا رخ رہا؟
آپریشن سندور، یعنی پہلگام کے بعد ہندوستان کی فوجی جارحیت کی حمایت صرف اسرائیل، تائیوان اور افغانستان کے طالبان نے کیا۔ ان 3 کے علاوہ ہندوستان کو اپنے روایتی ساتھیوں تک سے حمایت نہیں ملی۔
جنگ بندی سے قبل صبر کرنے کی بات کرتے ہوئے امریکہ نے ہندوستان اور پاکستان میں کوئی تفریق نہیں کی۔ ٹرمپ نے کہا ’’دونوں دوست ہیں، دونوں نیوکلیائی اسلحہ سے مزین ہیں۔‘‘ ہندوستان کی اس بات کو عوامی طور پر اہمیت ہی نہیں دی گئی کہ پاکستان سرحد پر دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔
سیکورٹی کونسل کے باقی 4 مستقل رکن ممالک میں چین پوری طرح کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ روس، فرانس اور برطانیہ نے صبر کرنے اور بات چیت سے مسئلہ سلجھانے کی بات کی۔ جی-7، جی-20، برکس یا کواڈ جیسے اداروں کے اراکین ممالک سے تو ہندوستان کو حمایت ہی نہیں ملی، پڑوسی ملک بھی حمایت میں آگے نہیں آئے۔ اس کے برعکس ترکیہ واضح طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا، اور 4 بر اعظموں میں پھیلے 57 رکن ممالک والے اسلامی کو آپریشن آرگنائزیشن نے یہ کہا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف ہندوستان کے بے بنیاد الزام‘ جنوبی ایشیا میں کشیدگی بڑھا رہے ہیں۔ حالات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایران اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ پہلے پاکستان گئے، اور پھر ہندوستان آئے۔
سیکورٹی کونسل نے لشکر طیبہ سے نکلے ادارہ ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ کا ذکر کرنے تک سے پرہیز کیا، جس نے پہلگام حملے کی ذمہ داری لی تھی۔ بین الاقوامی مانیٹری فنڈ سے پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر کا قرض دیے جانے پر ہندوستان کی مخالفت بھی رائیگاں گئی۔ ہندوستان نے زوردار دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس قرض کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن مانیٹری فنڈ کے ایگزیکٹیو بورڈ کے 24 دیگر رکن ممالک کے ڈائریکٹرس میں کسی نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔
4. کیا ہندوستان کا نظریہ پوری دنیا کو بتانے کے لیے حکومت کو خود قیادت نہیں کرنی چاہیے تھی؟ پوری دنیا کی سیر کرنے والے ہمارے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ اس کوشش کا حصہ کیوں نہیں بنے؟
خارجہ پالیسی پوری طرح سے مرکزی حکومت کا معاملہ ہے۔ ہندوستان کا رخ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری حکومت کی تھی۔ مودی کے دور میں اپوزیشن پارٹیوں نے بھی دیکھا ہے کہ سبھی اجلاس میں وہ خود ہی ہندوستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے کئی عالمی لیڈران سے دوستی کے دعوے عوامی طور پر کیے ہیں۔ اس لیے امید تھی کہ وہ خود ہی قیادت کرتے ہوئے اپنے دوستوں سے بات کریں گے اور ہندوستان کا نظریہ واضح کریں گے۔ وزیر اعظم نے نہ صرف اپنے ’دوست‘ ٹرمپ کی ثالثی کے دعوے کی تردید کرنے سے پرہیز کیا، بلکہ تردید کا عمل انجام دینے کے لیے اپنے چھٹ بھیوں کے حوالے کر دیا۔
وزارت خارجہ نے سفارت خانوں کے نمائندوں کو بلا کر پہلگام حملے میں پاکستان کے شامل ہونے کے ثبوت دیے، لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹ کہتی ہے کہ یہ ثبوت نمائندوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ سوچ یہ بھی بنی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر عوامی رائے بنانے میں ہندوستانی سفارت خانوں کی ناکامی کے سبب ہی کُل جماعتی نمائندہ وفود بھیجنے کی ضرورت پڑی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔