مذاکرات کریں گے لیکن قومی مفادات کا سودا ہرگز نہیں، ایرانی وزیرخارجہ

مذاکرات کریں گے لیکن قومی مفادات کا سودا ہرگز نہیں، ایرانی وزیرخارجہ

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے واضح کیا ہے کہ ایران کی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی ایک بنیادی اصول ہے اور اسے ہرگز معطل نہیں کیا جاسکتا۔

ایرانی ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو کے دوران جوہری کنسورشیم کے قیام کے حوالے سے جاری مباحث پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنسورشیم کا مطلب ہے کہ خطے کے چند ممالک کی مشترکہ ملکیت میں ایک جوہری ایندھن کی پیداوار کا مرکز قائم کیا جائے۔ ایران کا مؤقف اس بارے میں واضح ہے کہ خود کنسورشیم کا تصور برا نہیں، اور اگر علاقائی ممالک ایران کے ساتھ اس طرح کے اشتراک میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ہم ایران سے باہر بھی شراکت پر آمادہ ہیں۔ تاہم، یہ شراکت ایران کے اندر ہماری خودمختار افزودگی کا متبادل نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری نظر میں ایران کے اندر افزودگی ناقابل انکار اصول ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام انقلاب سے پہلے امریکہ کی سفارش اور مدد سے شروع ہوا تھا، اور امریکی مطالعے کی بنیاد پر ایران کو 20,000 میگاواٹ جوہری توانائی پیدا کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ یہ بات 50 سال قبل کہی گئی تھی، اور اب تو اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔

عراقچی نے مزید کہا کہ ایران مذاکرات سے خوفزدہ نہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مذاکرات بند کردیے جائیں۔ میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹیں گے۔ یہ ارادوں کی جنگ ہے، اور ہم اس میدان کو خالی نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ چونکہ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا، اس لیے مذاکرات آگے نہیں بڑھنے چاہئیں۔ جب تک فریقین کو لگے کہ کوئی حل نکل سکتا ہے، مذاکرات جاری رہتے ہیں۔ سفارتکاری کبھی مکمل طور پر بند نہیں ہوتی۔

عراقچی نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ ایران کے لیے افزودگی ترک کرنا ممکن نہیں۔ سب امریکہ کو کہہ رہے ہیں کہ ایران کبھی بھی افزودگی ترک نہیں کرے گا۔ ہم تب تک مذاکرات جاری رکھیں گے جب تک دوسرا فریق اس حقیقت کو تسلیم کرتا رہے۔

امریکی میڈیا میں افزودگی روکنے کے مطالبات کے جواب میں عراقچی نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر اپنا موقف کھل کر بیان کردیا کہ خواہ معاہدہ ہو یا نہ ہو، ایران کی افزودگی جاری رہے گی۔ ہم اپنا موقف بتانے سے نہیں ڈرتے۔

موساد کے سربراہ سے امریکی نمائندے کی ملاقات پر عراقچی نے کہا کہ یہ غیر معمولی بات نہیں۔ ہم امریکہ اور صہیونی حکومت کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہے تو ہم اپنی جوہری تنصیبات کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کریں گے۔ جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں خصوصی انتظامات کیا ہوتے ہیں، وہ بخوبی سمجھ جائیں گے۔

عراقچی نے واضح کیا کہ اگر صہیونی حکومت کوئی کارروائی کرے گی تو ایران اس کا جواب دے گا اور امریکہ کو بھی اس کا شریک سمجھے گا، چاہے وہ براہ راست ملوث ہو یا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کا موقف علنی طور پر پیش کرنا ایک سفارتی چال ہو سکتی ہے، لیکن ایران نے بھی فوراً اپنا موقف واضح کردیا۔ "ہم نے وزیر خارجہ عمان سے کہا کہ جب امریکہ اپنا موقف علی الاعلان طریقے سے پیش کر رہا ہے تو کیا ہمیں روم جانے کی ضرورت ہے؟ بہرحال، عمانی وزیر نے دلائل دیے، اور ہم اس دور کے مذاکرات میں شریک ہونے پر راضی ہو گئے۔

مغربی ممالک کے اس دعوے پر کہ ایران کے پاس تیل و گیس کے ذخائر ہیں، اس لیے اسے جوہری توانائی کی ضرورت نہیں، عراقچی نے کہا کہ یہ دلیل بے بنیاد ہے۔ اگر سعودی عرب اور امارات کے پاس تیل و گیس ہونے کے باوجود وہ جوہری بجلی گھر بنا سکتے ہیں تو ایران کیوں نہیں؟

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ سے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو پلان بی امریکہ کے پاس ہونا چاہیے۔ ایران اپنی جوہری صنعت کو جاری رکھے گا۔ اگرچہ پابندیاں مہنگی اور تکلیف دہ ہیں، لیکن ہم چالیس سال سے ان کے ساتھ جی رہے ہیں۔ البتہ اگر عزت کے ساتھ پابندیاں ہٹائی جائیں تو چنانچہ رہبر معظم نے فرمایا کہ ہم ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کریں گے۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے