جینت نارلیکر کا انتقال، ایک عہد کا خاتمہ

جینت نارلیکر کا انتقال، ایک عہد کا خاتمہ

آج ہمیں ایک عظیم انسان کی زندگی کا جشن منانا چاہیے، جو سائنس اور اس کے فروغ کے لیے ہمیشہ پرعزم رہے، ان کے پاس اشتراک اور لوگوں کے ساتھ مل جل کر سب سے بہترین نتیجہ اخذ کرنے کی غیر معمولی مہارت تھی۔

<div class="paragraphs"><p>جینت نارلیکر</p></div><div class="paragraphs"><p>جینت نارلیکر</p></div>
user

کچھ لوگ دروازے سے اندر نہیں آتے بلکہ چھت سے چھلانگ لگاتے ہیں۔ جینت نارلیکر انہی میں سے ایک تھے۔ 1964 میں، جب فریڈ ہوئل اور انہوں نے کیمبرج میں کشش ثقل کے اپنے نئے نظریہ کا اعلان کیا تو اچانک نہرو کے وژن کے جدید ہندوستان کو ایک سائنس کا ہیرو مل گیا۔ ان کے لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ نارلیکر سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا اثر حاصل کیا اور راتوں رات ملک بھر میں ایک گھریلو نام بن گیا۔

وہ آج (20 مئی) صبح سویرے پرسکون طور پر انتقال کر گئے، ان کی عمر 87 سال سے صرف دو ماہ کم تھی۔ 19 جولائی کو ان کی سالگرہ ہونا تھی۔ ان کا انتقال ہمارے ملک کی کائناتی تحقیق کے سنہری دور کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے IUCAA کی شکل میں ایک فروغ پذیر عالمی معیار کا ادارہ قائم کیا جو ہمارے ملک میں کاسمولوجی اور ایسٹرو فزکس کا ایک شاندار ادارہ ہے۔ اس مایہ ناز ادارے میں ہزاروں نوجوان محققین کی ایک کہکشاں ہے جو نارلیکر کے تحقیقاتی کاموں اور ان کی کتابوں سے متاثر ہوئی۔ ان کی پراثر شخصیت نے پوری دنیا میں لاکھوں مداحوں کے دل میں ایک خاص اور منفرد مقام بنا لیا۔ ان کو یاد کرنے کا یہی صحیح اور مناسب طریقہ ہوگا کہ ہم سب ستاروں، کہکشاؤں اور کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں، یہی ایک مناسب خراج تحسین ہوگا۔

آج ہمیں ایک عظیم انسان کی زندگی کا جشن منانا چاہیے، جو سائنس اور اس کے فروغ کے لیے ہمیشہ پرعزم رہے، ان کے پاس اشتراک اور لوگوں کے ساتھ مل جل کر سب سے بہترین نتیجہ اٹھانے کی غیر معمولی مہارت تھی۔ وہ انتہائی باوقار کیمبرج یونیورسٹی میں ایک غیر معمولی باصلاحیت کے شاندار طالب علم رہے اور بڑے بڑے اعزازات حاصل کیے جن میں مائشٹھیت ایڈمز پرائز بھی شامل تھا، جسے انہوں نے نے راجر پینروز کے ساتھ شیئر کیا تھا، جو اب ایک نوبل انعام یافتہ ہیں۔ اس طرح ان کا شمار اس وقت کے صف اول کے محققین میں ہوتا تھا۔

ہوئل-نارلیکر تھیوری نے اسٹیڈی اسٹیٹ تھیوری (کائنات جگہ اور وقت میں کہیں سے بھی ایک جیسی نظر آتی ہے، اور اس کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے) کاسمولوجی کی، جو بدقسمتی سے فلکیاتی بعد کے مشاہدات کے ساتھ موافق نہیں تھی، جس نے حتمی طور پر یہ ظاہر کیا کہ کائنات کا آغاز ایک بڑے دھماکے سے ہوا، جسے ’بگ بینگ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ وہ مستحکم ریاست کے نظریہ کے حامی پیروکاروں میں سے آخری تھے۔ اس کے باوجود وہ ایک شاندار محقق تھے، اور وقت کے خلاف سوار ہونے کا یقین اور حوصلہ رکھتے تھے اور اس وجہ سے ان کے علمی مخالفین کے دلوں میں بھی ان کی بہت عزت تھی۔ IUCAA میں کثرت سے مشہور بین الاقوامی مہمان، جن میں اکثر نوبل انعام یافتہ سائنسدان رہے، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔

IUCAA سائنس اور قوم کے لیے ان کا سب سے بڑا تحفہ ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اس کے دروازے یونیورسٹی کے عام طلباء اور فیکلٹی کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یونیورسٹیوں میں ان کے تحقیقی مقولوں کو شائع کرنا اور فلکیات کی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ یہاں ان کے کام کے لیے آنے اور بات چیت کرنے کی ایک مشترکہ سہولت ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یونیورسٹی کے طلباء اور فیکلٹی دنیا کے بہترین جرائد میں شاندار تحقیقی نتیجوں کی اشاعت کر رہے ہیں۔ یہی چیز نرلیکر کو سب سے زیادہ زیادہ خوش کرتی رہے گی۔

جو چیز ان کو نمایاں کرتی ہے، وہ ان کے لاتعداد عوامی لیکچرز اور سائنس فکشن کی کتابوں کے ذریعے سائنس اور اس کے طریقۂ کار کو نوجوان طلباء اور عام لوگوں تک پہنچانے کا مشنری جذبہ ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ یہی وہ پہلو ہے جو ان کو لوگوں سے مضبوطی سے جوڑتا ہے۔ ملک میں اور بھی بہت اچھے سائنسدان ہیں، لیکن کسی کو بھی اس قسم کی مقبولیت اور عزت حاصل نہیں ہوئی۔ بات کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ یاد کرتا ہوں۔ 1997 میں ہم نے بالگندھروا تھیٹر میں راجر پینروز کے لیکچر کا اہتمام کیا، اور وہاں فساد جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔ تقریباً 200 لوگ جو اندر نہیں جا سکتے تھے، چیخ رہے تھے اور گیٹ پیٹ رہے تھے، اور دوسری طرف سے ڈاکٹر شری رام لاگو انہیں تسلی دے رہے تھے۔ یہ ہمارا نارلیکر کا ادارہ ہے۔ یہی وہ پیمانہ تھا جو لوگوں کی ان سے محبت اور پیار کا مظہر تھا۔

کسی کے کام اور تعاون کی حتمی قدر یہ ہے کہ انھیں کہاں تک اور کتنی اچھی طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے سائنسی کام اور کتابوں کے علاوہ سب سے اہم چیز جو ان کی یاد کو طویل اور دور لے جائیں گی، وہ انسٹی ٹیوٹ، IUCAA کا بنانا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو اس نے اپنی مشہور تحریروں اور سائنس فکشن کے ذریعے متاثر متاثر کیا۔ مجھے یقین ہے کہ 50 سال یا اس سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد بھی ایسے بہت لوگ ہوں گے جو ان سے حاصل کردہ الہام اور ترغیب کی قسم کھائیں گے۔

1965 میں ہم تینوں نے ولبھ ودیا نگر سے احمد آباد کا ایک یادگار سفر کیا تاکہ اٹیرا ہال میں ان کا لیکچر سن سکیں۔ تب مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ میں نصف صدی سے زیادہ ان کے اس خواب کا حصّہ بن کر ان کے ساتھ کام کرنے میں گزاروں گا۔

(یہ مضمون نریش دادچ نے انگریزی زبان میں بطور خراج تحسین لکھا۔ مضمون کا اردو ترجمہ وصی حیدر نے کیا ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے