مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، سیاسی امور کے ماہر محسن صمیمی نے رہبر معظم انقلاب کے شہید رئیسی اور شہدائے خدمت کی یاد میں منعقدہ تقریب سے کئے گئے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ آج کے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے واضح فرمایا: یہ کہنا کہ ایران کو ایٹمی افزودگی کی اجازت نہیں دیں گے، یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے، یقیناً، میں ایک اور موقع پر ایرانی قوم کو بتاؤں گا کہ وہ افزودگی کے مسلئے پر کیوں اصرار کرتے ہیں۔
ان بیانات نے ایک بار پھر عوام کی توجہ اس سوال کی طرف مبذول کرائی کہ امریکہ اور اس کے اتحادی، خاص طور پر حالیہ برسوں میں، ایران میں یورینیم افزودگی کے معاملے میں خاصے حساس کیوں ہیں اور مذاکرات میں ٹرمپ کے نمائندے وٹکاف نے افزودگی کو امریکہ کے لیے ریڈ لائن کیوں قرار دیا؟
کیا یہ حساسیت محض تکنیکی ہے یا اس کی جڑیں گہرے مفادات اور اہداف میں پیوست ہیں؟
افزودگی؛ قومی طاقت اور اسٹریٹجک آزادی کی علامت
یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی دنیا کی "دوہرے مقصد” کی ٹیکنالوجیز میں سے ایک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دو استعمال ممکن ہیں پرامن استعمال میں (بجلی کی پیداوار، ریڈیو فارماسیوٹیکل، جوہری جہاز وغیرہ) جب کہ اگر سیاسی مقصد ہو تو اسے جوہری ہتھیاروں کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے، حالانکہ اس معاملے میں ایران نے مختلف سطحوں پر بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی غیر فوجی مقاصد کے لئے ہے۔ اس وجہ سے، اس ٹیکنالوجی کے حامل ممالک ایک طرح سے، تکنیکی طاقتوں کے کلب میں داخل ہو رہے ہیں۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران ایسی پوزیشن میں آئے، کیونکہ ایران کی مقامی افزودگی کے حصول کا مطلب مغربی تسلط والے بین الاقوامی نظام کی ریڈلائنز کو عبور کرنا ہوگا۔ واشنگٹن حکام کی طرف سے اس طرح کا رویہ اپنانے کی سب سے واضح وجہ یہی ہے۔
ایران کی جوہری ضروریات کو پورا کرنا
ایک ایسا ملک جس کے پاس افزودگی نہیں ہے اسے کسی بھی قسم کے ری ایکٹر ایندھن یا پرامن ایٹمی سرگرمی کے لیے مغرب کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہیے۔ یعنی یہ مغرب کا دست نگر بن جاتا ہے۔ امریکہ ایران کو افزودگی سے محروم کرکے مستقل دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب بھی کوئی مذاکرات یا بحران پیدا ہوتا ہے، مغرب ایندھن فراہم کرنے یا پابندیاں معطل کرنے کا وعدہ کر کے رعایتیں حاصل کر سکتا ہے۔ 2003 سے 2005 کے تجربے میں ( افزودگی کی مکمل معطلی کی مدت) میں یہ حقیقت ایران پر واضح ہو گئی۔ مکمل معطلی کے باوجود اعتماد سازی حاصل نہیں ہوئی اور مغرب کے مطالبات ختم نہیں ہوئے۔
ایران کے آزاد ممالک کے لیے ماڈل بننے کا خوف
ایک اور اہم وجہ مغرب کا ایران کے دوسرے ممالک کے لیے نمونہ بننے کا خوف ہے۔ اگر کوئی ترقی پذیر ملک، مقامی صلاحیت پر انحصار کر کے شدید سیاسی پابندیوں اور سیکورٹی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے، افزودگی جیسی حساس اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کرتا ہے، تو دوسرے ممالک بھی اسی راستے پر چلیں گے۔ درحقیقت امریکہ کی مخالفت صرف جوہری افزودگی نہیں، بلکہ اس کے خلاف ایک سیاسی پیغام بھی ہے کہ کہ ’’آپ امریکہ کے مقابلے میں کھڑے ہو کر ترقی کر سکتے ہیں۔
مبینہ سیکورٹی خدشات اور مغربی رائے عامہ پر کنٹرول
اگرچہ ایران نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کا خواہاں نہیں ہے، اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی بار بار رپورٹس میں کسی انحراف کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، لیکن امریکہ نے ایک قسم کا "سکیورٹی ابہام” پیدا کرکے اسے دباؤ ڈالنے کا مستقل بہانہ بنایا ہے۔ اس ابہام کو امریکہ دونوں مقامی طور پر (عوامی رائے عامہ کے سامنے ایران مخالف پالیسیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے) اور بین الاقوامی سطح پر ایران کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
پس پردہ حقیقت؛ جس کی طرف رہبر انقلاب نے اشارہ کیا
رہبر انقلاب نے آج وعدہ کیا کہ مستقبل میں وہ افزودگی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنے میں مغرب کے "اصل ارادے” کے بارے میں بات کریں گے۔
ان کے سابقہ بیانات پر غور کیا جائے تو امکان ہے کہ یہ وضاحتیں تکنیکی یا حتیٰ کہ سیاسی مسائل سے بھی بالاتر ہوں اور اسلامی نظام اور استکباری نظام کے درمیان تہذیبی اور نظریاتی چیلنج سے متعلق ہوں۔
اگرچہ وہ مثالوں میں جا کر مغربی طرزِ فکر کی گہرائی تک جا سکتے ہیں، لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ افزودگی کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے سلسلے میں ان کا ذاتی نقطہ نظر اور مجموعی طور پر اسلامی جمہوریہ کا نظام ایک انتہائی تکنیکی اور تزویراتی معاملہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نقطہ نظر سے، جوہری ٹیکنالوجی کے بارے میں مغرب کا نقطہ نظر ایک بنیادی تصادم کا حصہ ہے: دو بیانیوں کے درمیان تصادم – ایک بالادستی اور اجارہ داری پر مبنی ہے جب کہ دوسرا آزادی، انصاف اور مزاحمت پر مبنی ہے۔
یورینیم کی افزودگی صرف ایک تکنیکی سرگرمی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ارادوں کے امتحان کا میدان ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر ایران اس میدان میں مکمل فتح حاصل کرتا ہے تو دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دباؤ نہ تو رکا ہے اور نہ ہی یہ قانونی مسائل تک محدود ہے۔
رہبر انقلاب اس جنگ کو "قومی طاقت” اور "ایران کے آئندہ تمدن” کے لیے ایک بڑی جنگ کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں – ایک ایسی جنگ جو رکنے والی نہیں ہے۔