شہید رئیسی کا مکتب شہدائے انقلاب کے راستے کا تسلسل ہے، حجت الاسلام دیلمی

شہید رئیسی کا مکتب شہدائے انقلاب کے راستے کا تسلسل ہے، حجت الاسلام دیلمی

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام دیلمی نے شہید رئیسی کی شخصیت کی منفرد خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے ملک اور خالص اسلام کی خدمت میں ایک نیا فلسفہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے عمل سے اسلامی ایران کو دنیا اور عالمی سیاست دانوں کی نظروں میں مزید نمایاں کیا۔ انقلاب کے دوستوں اور اس کے دشمنوں دونوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایمانداری اور خلوص سے خدمت کرنے والی شخصیت تھے۔ 

 اسلامی تبلیغی مرکز کے نائب مدیر کے مطابق شہید رئیسی عوام کی خدمت کے لیے دن اور رات نہیں جانتے تھے اور ان کی نظر میں عوام بالخصوص نوجوانوں کو بلند مقام حاصل تھا۔ انہوں نے تعمیری تنقید کا خیر مقدم کیا اور سنت الہی اور انقلابی عقلیت پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمن کی مسکراہٹ پر کبھی بھروسہ نہیں کیا۔

 انقلاب کے دشمنوں کے ساتھ واضح حد بندی

 دیلمی نے اسلام اور انقلاب اسلامی کے دشمنوں کے ساتھ حد فاصل طے کرنے میں شہید رئیسی کی بے تکلفی، ثابت قدمی اور دیانت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقی معنوں میں، رہبر معظم کے مخلص اور حمایتی تھے، انہوں نے عوامی زندگی گزاری اور جہاد اور میدان عمل میں مصروف تھے۔ 

جہادی نمونہ امام رضا علیہ السلام سے لیا

انہوں نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کی زندگی سے جو اہم پیغامات سیکھے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک ان کا جذبہ جہاد اور انتھک جدوجہد ہے، امام ع نے بہت مشکل حالات میں مختلف سماجی طبقات میں دینی اصولوں کو پھیلانے کی کوشش کی اور بحرانوں اور مشکلات میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ 

شہید رئیسی; امام رضا کے نقش قدم پر چلے

 دیلمی نے کہا کہ شہید صدر آیت اللہ رئیسی، امام رضا علیہ السلام کی سیرت پر چلتے ہوئے، خالص اسلام کی اشاعت، کفر و نفاق کے محاذ پر لڑنے اور مسلمانوں کی انتھک خدمت کم نظیر تھے۔

 انہوں نے اپنی کوششوں کا حتمی صلہ امام رضا علیہ السلام سے حاصل کیا۔ جو کہ امام رضا علیہ السلام کی شب ولادت کے موقع جام شہادت نوش کیا۔

کرسی صدارت کے بجائے راہ ولایت پر چلتے ہوئے شہادت پائی

شہید رئیسی کی پیشانی کو بوسہ دینے والے شہید جنرل حج قاسم سلیمانی کے مشہور بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: "یہ بوسہ غیر دانشمندانہ نہیں تھا۔” شہید رئیسی نے صدارتی میز کے پیچھے شہادت حاصل نہیں کی بلکہ عوام کی مخلصانہ خدمت اور قیادت و امامت پر پختہ یقین کے ساتھ یہ بلند مقام حاصل کیا۔ وہ پہلے دن سے ہی عوام دوست تھے۔ 

اقوام متحدہ میں دلیرانہ تقریریں؛ دشمن شناسی اور اسلام شناسی کی علامت

 دیلمی نے بین الاقوامی میدانوں میں شہید رئیسی کی مقتدرانہ موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ میں ان کی طاقتور اور جرأت مندانہ تقریر جس کا آغاز قرآن مجید اور شہید قاسم سلیمانی کی تصویر سے ہوا، خالص اسلام اور اسلام کے دشمنوں کے بارے میں ان کی گہری بصیرت کی علامت ہے۔

انہوں نے مضبوطی سے اعلان کیا کہ وہ تسلط اور استکبار کے نظام کے سامنے کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔

  شہید رئیسی کے مدیریتی مکتب کا نمونہ

 دیلمی نے کہا کہ جس طرح ہم شہید قاسم سلیمانی کو مزاحمتی محاذ کا علمبردار اور مکتب مزاحمت کا نمونہ سمجھتے ہیں، اسی طرح شہید رئیسی بھی حج قاسم کے وفادار دوست، شہید بہشتی اور رجائی کی طرح اسلامی مکتب کا ایک عملی نمونہ تھے۔ آج، پہلے سے کہیں زیادہ، ہمیں ایک ماڈل کے طور پر اس مینجمنٹ اسکول کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے اسلامی انقلاب کے دشمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ایرانی قوم ایک ایسی قوم ہے جس نے سلیمانی اور رئیسی جیسے عظیم شہداء دئے اور یہ ملک ان عظیم شہداء کی دھرتی ہے جو اس وقت تک تم سے جنگ نہیں کریں گے جب تک خالص اسلام کا پرچم دنیا میں چھا نہیں جاتا۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے