تیری جدائی کو ایک برس بیت گیا؛ تبریز اب بھی شہید آل اشم کے لئے سوگوار

تیری جدائی کو ایک برس بیت گیا؛ تبریز اب بھی شہید آل اشم کے لئے سوگوار

مہر خبررساں ایجنسی، صوبائی ڈیسک؛ تبریز میں اب جمعہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہ بدلتے موسموں یا آسمان کی رنگینیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس شخص کے فقدان کے باعث ہے جس کے دیانتداری سے لبریز خطبوں سے زندگی چھلکتی تھی۔ 

اب کوئی ایسا نہیں ہے جو خاکی لباس اور مسکراتے چہرے کے ساتھ نمازیوں کی صفوں سے محبت بھرے انداز میں گزرتا ہو، جو  ایک نوجوان کی آنکھوں میں دیکھ کر کہتا ہو، "شاباش، اچھے جوان ہو!” 
ایسا مرد مومن اب کیسا ڈھونڈ لائیں۔

اب تبریز کی مسجد کے اونچے مینار بھی ان خطبات کے لیے ترستے نظر آتے ہیں جو کاغذ پر لکھ کر نہیں بلکہ دل سے پڑھے جاتے تھے۔ ایک سال گزر گیا لیکن نہ تبریز کا دل پرسکون ہوا اور نہ ہی یادیں مدھم ہوئیں۔ ان گرم جوشیوں کی آواز، وہ برجستہ لطیفے،  اس شہر کی پچھلی گلیوں میں اب بھی سنائی دیتے ہیں۔

بہت سے لوگ اب بھی ہر روز اپنے دلوں میں ان سے بات کرتے ہیں، جب وہ شریعتی اسکوائر پر بیکری لائن سے گزرتے ہیں۔
 ان کے والد آیت اللہ آلھاشم اب بھی اس گلی میں ایک سادہ گھر میں رہتے ہیں۔ آیت اللہ سید محمد تقی الہاشم تبریز کے ممتاز علماء میں سے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ سید محمد علی بھی اسی جلیل القد باپ کے فرزند ارجمند تھے۔

ان کی تقریریں پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں

  انہوں نے ایسی باتیں کہنے کی کوشش کی جو ان کے حقیقی خیالات اور عمل سے نکلتی ہوں۔ آل ہاشم نے وقت کی اہمیت کے بارے میں زیادہ تقریریں نہیں کیں، لیکن ایک کانفرنس کے ذمہ دار خود تاخیر سے پہنچے تو وہ پروگرام چھوڑ کر چلے گئے، یہ بتلانے کے لئے کہ لوگوں کا وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے۔

تیری جدائی کو ایک برس بیت گیا؛ تبریز اب بھی شہید آل اشم کے لئے سوگوار

 ملک بھر میں بدامنی کے عالم میں صرف تبریز اور تبریزی ہی سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ تبریزیوں کے پرامن رہنے کی ایک وجہ ان کے امام جمعہ تھے۔

تبریز کے کوچہ و بازار آل ہاشم کو یاد کرتے ہیں

تبریز کی پرانی گلیوں اور مصروف بازاروں میں، جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں، سب ایک ہی نام سے آشنا ہیں، وہ آل ہاشم۔

 ہم نے ان لوگوں سے بات کی جنہوں نے سالوں سے جمعہ کی نماز کے مرحوم امام کے طرز عمل اور کردار کو دیکھا تھا۔ بازار کے نان بائی علی مردانی آنکھوں میں آنسو لیے کہتے ہیں: "حاج آغا ہمیشہ خود روٹی خریدنے آتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ اسے اپنے خاندان کے لیے تازہ روٹی کی ضرورت ہے، لیکن اس نے ہمیں کبھی نہیں بتایا کہ وہ امام جمعہ ہیں۔ وہ بہت مہربان، ملنسار اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ 

تیری جدائی کو ایک برس بیت گیا؛ تبریز اب بھی شہید آل اشم کے لئے سوگوار

تبریز یونیورسٹی کی ایک طالبہ سارہ لطفی نے کہا کہ جب ہم سب نے حاج آغا کو یونیورسٹی میں دیکھا تو  محسوس کیا کہ وہ واقعی ہمارے درد کی پرواہ کرتے ہیں۔

ان کے خطبات مختصر لیکن دلوں کو چھونے والے ہوتے تھے۔ اسی لئے لوگ وہ نماز جمعہ کا بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔

 ایک نوجوان نے بتایا کہ انہوں نے امام جمعہ کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھا کہ اس دن حاج آغا اپنے شہر کے لوگوں کے ساتھ اسٹیڈیم آئے تھے، وہ 90 منٹ تک ہمارے ساتھ رہے اور کھیل کے بعد نہایت احترام اور سکون سے سٹیڈیم سے چلے گئے۔ یہ اقدام سادہ مگر کارآمد تھا۔

ایک مرد خاکی جو دلوں میں گھر کر گئے

 سید محمد علی الہاشم جہاں امام جمعہ تھے وہیں ایک سادہ زیست انسان تھے۔ انہوں نے عام ٹیکسیوں اعر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کیا اور اس دوران لوگوں کے درد کو سنا، اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کی۔ وہ کئی سال تبریز کے لوگوں کے ساتھ رہے اور ان کی شہادت کے ایک سال بعد بھی ان کی یاد عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ یہ شخص تقریر سے زیادہ اپنے عمل سے بولتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تبریز کے لوگ انہیں نہ صرف  امام جمعہ کی حیثیت سے بلکہ ایک مہربان دوست اور والد کی حیثیت سے بھی یاد کرتے ہیں۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے