شہید رئیسی آغاز سے ہی نظام ولایت کے راستے پر ثابت قدم رہے، ایرانی چیف جسٹس

شہید رئیسی آغاز سے ہی نظام ولایت کے راستے پر ثابت قدم رہے، ایرانی چیف جسٹس

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی ایجی نے شہید رئیسی کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 1976ء کے بعد کے سالوں میں، دینی مدارس میں ایک نیا ماحول تھا، اور جن لوگوں نے سیاسی مسائل کو اٹھایا، ان میں سے ایک شہید بہشتی تھے، اس دور کے نوجوان ان بزرگوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ تب سے میری شہید رئیسی سے شناسائی شروع ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں انقلاب سے پہلے ان سے واقف نہیں تھا، اور انقلاب کے بعد ہی میں شہید رئیسی سے آشنا ہوا۔” انقلاب کے بعد نوجوان عدلیہ میں آنے لگے۔ اس وقت ایک انقلابی ماحول اور بدعنوانی کے خلاف جنگ (کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے خلاف جنگ) غالب تھی، اس وقت ہمارے رابطے میں اضافہ ہوا۔

حجت الاسلام اژہ ای نے مزید کہا کہ 1987 کے بعد سے ان کی شہادت تک، کبھی بھی ہمارے رابطے میں خلل نہیں پڑا اور ان چالیس سالوں کے دوران، ہم نے سب سے زیادہ تعاون کیا۔

انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں کہا کہ انقلاب کے بعد ایسے لوگ تھے جو ظاہری طور پر انقلابی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا، تاہم کچھ لوگ انقلاب کے آغاز سے ہی صراط مستقیم اور رہبری اور نظام کے راستے پر قائم رہے، میری رائے میں یہ ان اہم خصوصیات میں سے ایک ہے جو شہید رئیسی میں موجود تھی اور وہ آخر تک اس راستے پر قائم رہے۔

ایرانی چیف جسٹس نے کہا کہ شہید رئیسی کی ایک اور خصوصیت مسائل کی پیروی تھی، اور یہ میرے لیے دلچسپ تھا، جب وہ عدلیہ کے سربراہ تھے تو میں ان کا نائب تھا اور میں نے شہید رئیسی کی مختلف مسائل میں باقاعدہ پیروی کا مشاہدہ کیا، اپنے اہداف کے حصول میں انتھک رہنا ان کی واضح خوبیوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے شہید رئیسی کی شہادت کے حوالے سے کہا: ہم اس دن کو کیسے بھول سکتے ہیں، ہم نے معاشرے کی ایک عظیم اور ہر دلعزیز شخصیت کو کھو دیا۔ مجھے صحیح وقت یاد نہیں، لیکن مجھے یاد ہے جب مجھے بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر غائب ہے۔ میں شہید رئیسی کو جانتا تھا اور مجھے یہ خبر سن کر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی گاؤں میں رک گئے ہیں، لیکن اس کے بعد آنے والی خبروں نے میری پریشانی بڑھا دی۔ ان کی شہادت کی خبر بہت دل دہلا دینے والی تھی۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے