پروفیسر خان کی گرفتاری نے بی جے پی کو کیا بے نقاب، حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت سے سوال نہیں کر سکتے: کھڑگے
ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ ’’کانگریس پارٹی کے لیے قومی اتحاد سب سے بڑھ کر ہے، لیکن بی جے پی کو اس وہم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ حالیہ واقعات کی آڑ میں آمریت کو فروغ دے سکتی ہے۔‘‘
ملکارجن کھڑگے
پہلگام دہشت گردانہ حملہ اور ’آپریشن سندور‘ کے بعد اب ان لوگوں کے خلاف بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں کارروائی ہو رہی ہے، جنہوں نے حکومت سے سوال کیا۔ اس فہرست میں پروفیسر علی خان محمود آباد کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ آپریشن سندور پر جیسے ہی پروفیسر علی خان محمود آباد نے بیان دیا، ان کے خلاف پہلے تو ایف آئی آر درج کی گئی اور اس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بڑی تعداد میں پروفیسر علی خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کیا حکومت سے سوال پوچھنا بھی جرم ہے؟ کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے۔
ملکارجن کھڑگے نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’انڈین نیشنل کانگریس ہمیشہ اپنے مسلح افواج، بیوروکریٹس، ماہرین تعلیم، دانشوروں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ میں کسی بھی شخص کے کردار کشی، بدنامی، ٹرولنگ، ہراساں کرنے اور غیرقانونی طور پر کی گئی گرفتاری اور کسی بھی کاروباری ادارے کی توڑ پھوڑ کی مذمت کرتا ہوں، خواہ وہ سماج دشمن عناصر کے ذریعہ ہو یا سرکاری ریاستی مشنری کے ذریعہ۔‘‘
کھڑگے کے مطابق اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آبادی کی گرفتاری سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کسی بھی رائے سے کتنی خوف زدہ ہے جو اسے پسند نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک سلسلہ وار ردعمل کا نتیجہ ہے، جو ہمارے شہید بحریہ افسر کی غمزدہ بیوہ، ہمارے خارجہ سیکریٹری اور ان کی بیٹی کو نشانہ بنانے اور بی جے پی کے ایک وزیر کے ذریعہ ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دے رہی ایک کرنل کے لیے کی گئی قابل مذمت تذلیل آمیز تبصرے سے شروع ہوئی۔‘‘
کانگریس قومی صدر نے مزید کہا کہ ’’مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے والے اپنے ہی مدھیہ پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر کو برخاست کرنے کے بجائے، بی جے پی-آر ایس ایس یہ کہانی گھڑنے میں لگے ہیں کہ جو کوئی بھی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے، حکومت سے سوال کرتا ہے یا قوم کی خدمت میں اپنا پیشہ ورانہ فرض ادا کرتا ہے، اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔‘‘ کھڑگے کے مطابق مسلح افواج اور حکومت کی حمایت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حکومت سے سوال نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کانگریس پارٹی کے لیے قومی اتحاد سب سے بڑھ کر ہے، لیکن بی جے پی کو اس وہم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ حالیہ واقعات کی آڑ میں آمریت کو فروغ دے سکتی ہے۔ جمہوریت کو مضبوطی ہونا چاہیے۔‘‘
دوسری جانب سپریم کورٹ نے پیر (19 مئی) کو علی خان محمود آباد کی عرضی پر سماعت کرنے کے لیے راضی ہو گئی ہے۔ سی جے آئی بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے ایسو سی ایٹ پروفیسر کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل کپل سبل کے دلائل پر غور کیا اور کہا کہ عرضی کو منگل یا بدھ کو سماعت کے لیے درج کیا جائے گا۔ کپل سبل نے کہا کہ ’’انہیں حب الوطنی پر مبنی بیان کے لیے گرفتار کیا گیا ہے، براہ کرم اسے آج درج کریں۔‘‘ اس پر سی جے آئی نے کہا کہ ’’براہ کرم اسے کل یا پڑسوں کے لیے درج کیا جائے۔‘‘
علی خان محمود آباد ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹیکل سائنس کے ہیڈ ہیں۔ 8 مئی کو کی گئی پوسٹ میں پروفیسر علی خان نے لکھا تھا ’’بہت سارے دائیں بازو کے مبصرین کرنل صوفیہ کی تعریف کر رہے ہیں، یہ دیکھ کر میں خوش ہوں۔ لیکن یہ لوگ شاید اسی طرح سے ماب لنچنگ کے متاثرین، من مانے ڈھنگ سے بلڈوزر چلانے اور بی جے پی کی نفرت کے شکار لوگوں کو لے کر بھی آواز اٹھا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پر تحفظ فراہم کی جائے۔‘‘ انہوں نے آگے لکھا کہ ’’2 خواتین کے ذریعہ معلومات فراہم کرنے کا نظریہ اہم ہے۔ لیکن اس نظریہ کو حقیقت میں بدلنا چاہیے، نہیں تو یہ صرف اور صرف منافقت ہے۔‘‘
پروفیسر علی خان نے اپنی اسی پوسٹ میں ہندوستان کی تنوع کی بھی تعریف کی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ ’’حکومت جو دکھانے کی کوشش کر رہی ہے اس کے مقابلے میں عام مسلمانوں کے سامنے زمینی حقیقت مختلف ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس پریس کانفرنس (کرنل صوفیہ اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ) سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان اپنے تنوع میں متحد ہے اور ایک نظریہ کے طور پر پوری طرح سے مردہ نہیں ہے۔‘‘ پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ کے اخیر میں ترنگے کے ساتھ ’جے ہند‘ لکھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔