3 دنوں کی جنگ، لیکن ’نہ 3 کے، نہ 13 کے‘!… کمار پرشانت

3 دنوں کی جنگ، لیکن ’نہ 3 کے، نہ 13 کے‘!… کمار پرشانت

3 دنوں کی اس جنگ سے حاصل کیا ہوا؟ کھوکھلی سیاسی شیخی اور انتخابی فصل کاٹنے کی تیاری وغیرہ کی باتیں تو اہل سیاست جانیں، ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ 3 دنوں کی اس ڈرون بازی سے ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر، یو این آئی</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل تصویر، یو این آئی</p></div>

فائل تصویر، یو این آئی

user

ضرب المثل ’ہاتھ کے توتے اڑ جانا‘ ایسے ہی وقت کے لیے بنی ہے۔ ان سبھی جنگ بازوں کے ہاتھ کے توتے اڑ گئے ہیں جو وزیر اعظم کو للکار رہے تھے کہ بس، اب رکنا نہیں ہے، اسلام آباد اور لاہور جیب میں لے کر ہی لوٹنا ہے۔ لیکن ایسے سارے شور دھرے رہ گئے اور 3 دنوں میں پاکستان کے ساتھ ہمارا اب تک کی سب سے چھوٹی جنگ بھی ختم ہو گئی۔

کوئی بھی جنگ ختم ہو اور امن کسی بھی راستے لوٹے تو اس کا ہر حال میں استقبال ہی کرنا چاہیے۔ امن شرط نہیں، زندگی ہے، لیکن یہ امن کسی باز کے چنگل میں دبی ہوئی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی امن کے لیے ثالثی جنگ سے کم خطرناک نہیں ہے۔ اگر وزیر اعظم کا یہ کہنا سچ ہے کہ یہ امن امریکہ کی ثالثی سے نہیں، خوفزدہ پاکستان اور فتحیابی کے قدم چومنے والے ہندوستان کی سمجھداری سے آئی ہے، تو محترم ٹرمپ کے اس بیان کی سختی سے مذمت ہونی چاہیے۔ انھوں نے سب سے پہلے، کسی سے بھی پہلے ٹوئٹ کر ثالثی کا دعویٰ بھی کر دیا، سمجھداری دکھانے کے لیے دونوں ’بچوں‘ کی پیٹھ بھی تھپتھپا دی، دونوں کو ساتھ بٹھا کر ’سوری‘ کہنے کے لیے ’غیر جانبدار جگہ‘ بھی بتا دی اور اس تنازعہ سے باہر آنے میں راہنما بننے کی پیشکش بھی کر دی؟

اتنا ہی نہیں، یہ بھی کہہ دیا کہ میرے کہنے سے ’خود سپردگی‘ نہیں کرو گے تو میں دھندا پانی بند کر دوں گا۔ یہ سب باتیں کسی کے حوالے سے نہیں، براہ راست محترم ٹرمپ کی زبان سے ہم نے بھی سنی، مودی جی نے بھی سنی اور ساری دنیا نے سنی۔ ان کی اس حرکت کی مذمت تو دور، نہ ہندوستان نے اور نہ ہی پاکستان نے دوست ٹرمپ سے ایسا کچھ بھی کہا، بلکہ پاکستان نے تو ان کا عوامی طور پر شکریہ بھی ادا کیا۔ بین الاقوامی سیاست کے اس دور میں امریکہ اور ٹرمپ کا یہ رویہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس کی گہری چھان بین ہونی چاہیے، لیکن ابھی ہم خود کو تو دیکھیں، پھر محترم ٹرمپ کی بات کرتے ہیں۔

آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان سے ہماری جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں، اس کے پیچھے کہانی یہی رہی ہے کہ پاکستان نے ہمارے سامنے دوسرا کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں۔ لیکن ایک فرق بھی ہے، جسے بھی سمجھنا ضروری ہے۔ کارگل اور پہلگام، دونوں کے ساتھ ایک بات یکساں ہے کہ ان دونوں جنگوں کے پیچھے حکومت کی حد درجہ ناکامی کو چھپانے اور خود کی تعریف کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ آپ حساب لگائیں تو ان دونوں مواقع پر ملک کی قیادت بی جے پی کے ہاتھوں میں تھی۔ کارگل میں پاکستان اندر گھس آیا، پہاڑیوں میں اس نے اپنی مضبوط جگہ بنا لی، اسلحہ و گولہ بارود جمع کر لیا اور اٹل بہاری واجپئی کی حکومت سوتی رہی۔ بعد میں سینکڑوں جوانوں کے خون سے اپنی یہ غلطی چھپائی گئی۔

ایسا ہی پہلگام میں ہوا۔ ہماری خفیہ ایجنسی اور ہمارا سیکورٹی نظام کہاں سو رہا تھا کہ پاکستان سے دہشت گرد نکلے اور پہلگام کے اس علاقے میں پہنچ گئے جہاں سینکڑوں سیلانی جمع تھے؟ جس کشمیر کا چپہ چپہ آپ کی مٹھی میں ہے اور جہاں کوئی کشمیری پلک بھی جھپکاتا ہے تو آپ کو پتہ چل جاتا ہے، ایسا دعویٰ وزیر داخلہ کرتے نہیں تھکتے، وہاں ایسی بد احتیاطی؟ اور شرمناک یہ کہ اس کے بارے میں کوئی صفائی آج تک نہیں دی گئی، کوئی معافی نہیں مانگی گئی۔ صرف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ ’ٹریڈ‘ اور ’ٹاک‘ ایک ساتھ نہیں چل سکتے؛ کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے! تو کیا ’سرکار‘ اور ’بے کار‘ ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟

3 دنوں کی اس جنگ سے حاصل کیا ہوا؟ کھوکھلی سیاسی شیخی اور انتخابی فصل کاٹنے کی تیاری وغیرہ کی باتیں تو اہل سیاست جانیں، ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ 3 دنوں کی اس ڈرون بازی سے ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ نہ ہم پاکستان کو اتنا کمزور کر سکے کہ وہ آگے کوئی دوسرا پہلگام کرنے کی ہمت نہ کرے، نہ ہم بین الاقوامی طاقتوں کو اپنے پیچھے اس طرح کھڑا کر سکے کہ کوئی پاکستان، کوئی چین اس کی تپش محسوس کر سکے۔ دوڑ دوڑ کر بیرون ممالک جانے والا، جبراً گلے پڑنے والا ہمارا اسٹریٹجک بوناپن ایسا رہا ہے کہ آج ہمیں اور پاکستان دونوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھ کر ٹرمپ نے اپنی جھولی میں ڈال لیا ہے۔ امریکہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے پیچھے چین کھڑا ہے اور آج پوتن کا روس، چین کے خلاف دور تک نہیں جا سکتا۔ بین الاقوامی برادری میں ہمارے اس طرح الگ تھلگ پڑ جانے سے ملک بڑی اٹپٹی حالت میں آ گیا ہے۔

3 دنوں کی اس ڈرون بازی نے ہمیں ایک دم بے پردہ کر دیا ہے۔ ہمیں یہ سچائی پہلی بار سمجھ میں آئی ہے کہ اسلحوں کا جتنا بھی ذخیرہ ہم جمع کر لیں، اس کا ہم منمانا استعمال نہیں کر سکتے۔ اس لیے جنگ میں کسی کو نتیجہ خیز طور سے شکست دینا آج آسان نہیں ہے۔ ہماری فوج طاقتور ہے، یہ دعویٰ ہم کرتے رہیں، لیکن یہ سچائی بھی سمجھتے رہیں کہ کوئی بھی فوج اتنی ہی طاقتور ہوتی ہے جتنا طاقتور ہوتا ہے اس کے پیچھے کھڑا سماج۔ ہم نے اپنے سماج کا کیا حال بنا رکھا ہے؟

ہمارا سماج کس طرح ایسی بھیڑ میں بدل گیا ہے کہ جس کے پاس جنگ و جدال کے لیے نعرہ بازی کے علاوہ کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ ہمارا میڈیا ان 3 دنوں میں اپنے صفحات اور پردوں پر جس طرح کی ’فرضی‘ جنگ لڑنے میں مصروف تھا، اس سے تو ویڈیو گیم کھیلنے والا کوئی بچہ بھی شرما جائے۔ پہلگام میں بداحتیاطی کی ہر حد پار کرنے والی حکومت، ملک کے اندر خبروں کے بارے میں اتنی محتاط تھی کہ سب کو وہی کہنا اور لکھنا تھا جو حکومت کہے۔ اس حکومت نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ جیسے آج قومی سیکورٹی کو سب سے بڑا خطرہ آزاد سوچ و خبروں سے ہے۔

ہمارا نام نہاد ’ماہر دانشور‘ کتنا کمزور ہے، یہ بھی ان 3 دنوں میں پتہ چلا۔ یوٹیوب جیسے ذرائع، جو ملک کے نظریات کو ایک دوسرا زاویہ دے رہے تھے، ان سب کو چن چن کر بند کر دیا گیا۔ ایک ماحول ایسا بنایا گیا کہ جب قومی سیکورٹی خطرے میں پڑی ہو تو آپ جمہوری حقوق کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ کے ایسے رویہ سے 2 باتیں پتہ چلیں: پاکستان جیسا کھوکھلا ہو چکا ملک بھی محض 3 دنوں میں ہم جیسے وسائل سے بھرپور ملک کی سیکورتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے؛ اور یہ بھی کہ جمہوری حقوق سے ملک مضبوط نہیں، بلکہ کمزور ہوتا ہے۔

سارے چینلز کہہ رہے تھے، سارے اخبار بھیانک اُباؤ یک رخی کے ساتھ لکھ رہے تھے، وزیر اعظم بھی بول رہے تھے اور اس کی لہریں سارے وزرا کے اندر سے بھی اٹھ رہی تھیں کہ ہم نے جواب دے دیا۔ 26 بے قصور ہندوستانیوں کے قتل کا جواب ہم نے دے دیا! کیسے جواب دیا؟ 26 لاشوں کے بدلے 100 لاشیں گرا کر؟ یہ کسی امن پسند یا گاندھی یا بودھ والے کی دلیل نہیں ہے، عام سمجھ کی بات ہے کہ بدلہ بھلے لیا، لیکن جواب تو کچھ بھی نہیں بنا۔ دونوں حکومتیں نہیں بتا رہی ہیں کہ فوجی و شہری ملا کر مجموعی طور پر کتنے لوگ مارے گئے؟ لیکن آپ کی ہی دی خبریں، آپ کے ہی دکھائے منظر بتاتے ہیں کہ ہماری گولہ باری اور پاکستان کی جوابی کارروائی میں کئی جانیں گئی ہیں، کافی بربادی ہوئی ہے۔

جو یہاں ہو رہا ہے، وہی پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ شکست خوردہ آدمی کی طرح ہی شکست خوردہ ملک بھی زیادہ پریشان ہوتا ہے، تو پاکستان کی یہ ذہنی حالت ہم سمجھتے ہیں، لیکن اپنی ذہنیت حالت پاکستان جیسی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ کہنا ہوگا کہ دونوں نے اپنا اپنا جواب دے دیا ہے، اور خالی ہو گئے ہیں۔ جنگ کے دروازے بھی فی الحال بند ہو گئے ہیں تو بات ختم ہو گئی۔ اب کوئی کہے کہ کس نے کس کو جواب دے دیا؟ روایت کی شیخی بگھارنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ مہابھارت کے آخر میں آ کر دھرم راج یدھشٹھر کا رتھ بھی زمین سے آ لگا تھا، اور وہ بھی اپنی خالی ہتھیلی دیکھ کر یہی پوچھ رہے تھے کہ ہاتھ کیا آیا؟

موت زندگی کا جواب نہیں ہے، وہ تو زندگی کا اختتام ہے۔ زندگی ہے تو سوال ہے؛ اور سوال ہے تو ان کا جواب بھی ہوگا جنھیں ہمیں تلاش کرنا ہوگا۔ آج ہم تلاش نہیں کر سکے تو کوئی بات نہیں۔ تلاش کرتے رہیں گے تو جواب ملے گا۔ ہمارے بس میں اتنا ہی ہے کہ ہم تلاش کرنے میں ایماندار ہوں۔ بودھ بے شمار سالوں پہلے یہی تو کہہ گئے: تم جیسا سوچتے ہو، ویسے ہی بن جاتے ہو۔ اس لیے جنگ بھی لڑیں تو انسانیت بھول کر نہیں، بخار بھی چڑھے تو جنگ و جدال کا نہیں، کیونکہ ہمیں کسی بھی صورت میں نہ غیر انسانی بننا ہے، نہ بنانا ہے۔ ہمیں ویسا شہری نہیں بننا ہے جو بحریہ کے لیفٹیننٹ ونئے نروال کی بیوی ہمانشی کے کردار پر اس لیے کیچڑ اچھالتا ہے کہ اس نے پہلگام میں دہشت گردوں کے ذریعہ اپنے شوہر کے قتل کے بعد بھی ملک کو دیشی دہشت گردوں کے ہاتھ سونپنے سے منع کر دیا۔

مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت میں وزیر وجئے شاہ نے کرنل صوفیہ قریشی کے بارے میں جو نازیبا باتیں کہیں، وہ زبان کی پھسلن بھر نہیں، اس خاص ذہنیت کا عکاس ہے جس کے ماہر مقرر کپڑوں سے اپنے شہریوں کی پہچان کی بات کرتے ہیں؛ یہی لوگ ہیں جو ہمارے اعلیٰ خارجہ سکریٹری وکرم مسری پر اس لیے الزامات لگاتے ہیں کہ انھوں نے جنگ بندی کی خبر دیتے ہوئے شائستگی نہیں چھوڑی۔ اشتعال کا راکشش ہمیشہ اسی طرح بھوکا ہوتا ہے– ’اسے پانی نہیں بھاتا/سیاست خون پیتی ہے‘۔

(مضمون نگار ’گاندھی شانتی پرتشٹھان‘ کے سربراہ ہیں)


[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے