وقف ترمیمی قانون کی متنازعہ شقوں پر پابندی کا جاری رہنا ایک امید افزا پیش رفت: مولانا ارشد مدنی

وقف ترمیمی قانون کی متنازعہ شقوں پر پابندی کا جاری رہنا ایک امید افزا پیش رفت: مولانا ارشد مدنی

مولانا مدنی نے کہا کہ ’’اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق نئے وقف قوانین کی متنازعہ شقوں پر روک کے باوجود کئی مقامات پر مساجد اور درگاہوں کو غیرقانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>مولانا ارشد مدنی / تصویر پریس ریلیز</p></div><div class="paragraphs"><p>مولانا ارشد مدنی / تصویر پریس ریلیز</p></div>

مولانا ارشد مدنی / تصویر پریس ریلیز

user

مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے وقف قانون 2025 کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پر جمعرات (15 مئی) کو سماعت ہوئی۔ عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت آئندہ ہفتہ منگل کو کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگلی سماعت میں عدالت، عبوری روک سے متعلق فریقین کے دلائل سنے گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس جارج مسیح کی سربراہی والی 2 رکنی بنچ نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر بحث کے لیے وکلاء کو 2-2 گھنٹے کا وقت دیا جائے گا اور مخالف فریق کو بھی جواب دینے کے لیے 2 گھنٹے کا وقت دیا جائے گا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ بحث کے لیے وکلاء کی تقرری فریقین پر چھوڑ دی گئی ہے، تاہم دونوں فریق مقررہ وقت کے مطابق ہی بحث کر سکیں گے۔

جمعیۃ علماء ہند کے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ، انہوں نے ایک مختصر نوٹ تیار کیا ہے جس کی بنیاد پر ہی بحث کی جائے گی۔ کپل سبل کے ذریعہ تیار کردہ نوٹ کا جواب مرکزی حکومت پیر تک عدالت میں داخل کرے گی، اس بات کی تصدیق سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی ہے۔ اب سپریم کورٹ اس معاملہ کی سماعت 20 مئی کو کرے گی۔ واضح ہو کہ کپل سبل کی درخواست پر عدالت نے مرکزی حکومت کے ذریعہ متنازعہ شقوں پر دی گئی یقین دہانی کو اگلی سماعت تک برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ آج بھی عدالت میں وقف ترمیمی قانون کی حمایت میں داخل کی گئی عرضی پر بحث کرنے کی اجازت طلب کی گئی، جسے سی جے آئی نے مسترد کر دیا اور کہا کہ صرف انہیں 5 عرضیوں پر بحث کی اجازت دی جائے گی جنہیں عدالت نے متعین کیا ہے۔ دیگر کسی عرضی پر بحث کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

عدالت کی جانب سے متعین کردہ 5 عرضیوں میں مولانا ارشد مدنی کی عرضی پہلے نمبر پر ہے، جس پر آج سینئر وکیل کپل سبل نے بحث کی ہے۔ اگلی سماعت میں عدالت وقف ترامیم پر عبوری روک سے متعلق ہی سماعت کرے گی، یہ وضاحت سی جے آئی بی آر گوئی نے آج کی سماعت کے دوران پیش کی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر کہا کہ ’’امید افزا بات یہ رہی کہ متنازعہ شقوں پر عدالت نے پابندی برقرار رکھی ہے۔ اگلی سماعت میں فریقین کے وکلاء کو بحث کے لیے 2-2 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے، یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ عدالت اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور جلد از جلد اس کی سماعت مکمل کرنا چاہتی ہے۔‘‘

مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس پر عدالت کا حتمی فیصلہ جلد ہی آ جائے۔ کیونکہ اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق نئے وقف قوانین کی متنازعہ شقوں پر روک کے باوجود کئی مقامات پر مساجد اور درگاہوں کو غیرقانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔ اس میں اتراکھنڈ میں واقع ایک وقف درگاہ کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح نیپال کی سرحد سے متصل اتر پردیش کے کئی اضلاع میں کئی مدرسوں، قبرستانوں، عیدگاہوں اور مسجدوں تک کو غیرقانونی یا سرکاری زمین پر واقع قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔

مولانا مدنی کے مطابق جو لوگ آئین کی بالادستی کو ختم کر چکے ہوں، ان سے قانون کے احترام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اقتدار کے نشے میں خود کو ہی قانون سمجھ بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی مولانا مدنی نے کہا کہ وقف ’صدقہ‘ کی ایک شکل ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ وقف کو لے کر پچھلے کچھ عرصے سے بہت زیادہ جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلایا گیا ہے اور اکثریتی طبقہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وقف کی آڑ میں مسلمانوں نے سرکاری زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جبکہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وقف املاک پر سب سے زیادہ قبضہ حکومت نے ہی کر رکھی ہے۔ یہ وقف ترمیمی قانون اس لیے لایا گیا ہے کہ اس غیر قانونی قبضے کو قانونی تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ دیگر وقف املاک پر قبضے کی راہ کو آسان بنایا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے