
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں، امن عالم کا خون ہے آخر

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
ہندوستان نے پاکستان میں موجود دہشت گردی کے تربیتی اڈوں پر حملہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنے دشمن کو کبھی بھی ٹھکانے لگا سکتا ہے۔ 6 اور 7؍مئی کی درمیانی شب میں ہونے والے میزائل حملوں سے پاکستان ٹھرّا اُٹھا اب اُسے سنبھل جانا چاہئے کہ دہشت گردی مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ اسی لئے اُردو کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
جب بھی جنگ ہوتی ہے ،بموں کا استعمال ہوتا ہے وہ بم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس پر گر رہے ہیں اور کس کو قیامت کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ساحر یہ کہتے ہیں کہ
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
جنگ میدان میں دندناتے ہوئے ٹینک آگے بڑھتے ہیں اور دشمنوں کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کرتے چلے جاتے ہیں تو ساحر یہ کہتے ہیں کہ
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی مسئلہ کا حل دریافت نہیں کرتی بلکہ محاذ جنگ پر موجود دو قوموں کی زندگی میں اور تباہی لاتی ہے۔ ساحر فرماتے ہیں کہ
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ تناؤ کو ختم کرنے کے لئے دونوں ملکوں میں مفاہمت کروانے کے لئے تیا رہیں لیکن ابھی تک وہ کوئی بھی قدم اُٹھانے سے قاصر ہیں۔ جنگ کا نہ ہونا خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسی لئے ساحر یہ تاثر دیتے ہیں کہ
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
جنگ میں لڑنے والی قومیں اپنی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو دونوں ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے ساحر کی زبان پر یہ بات آجاتی ہے کہ
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
ہندوستان اور پاکستان کے بیچ میں جنگ کے کئی میدان ہیں جس میں بھوک، تنگ دستی، غربت اورفرقہ پرستی جیسی کئی بیماریاں موجود ہیں جس کے خلاف جنگ کی جاسکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے جس پر ساحر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں
وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے سیاستداں اور عوام آگے بڑھیں۔وہ دعوت دیتے ہیں کہ
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
جنگ، سرمائے کے تسلّط سے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
فکر کی روشنی کو عام کریں
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
امن، جمہور کی خوشی کے لئے
امن، پُر امن زندگی کے لئے
دنیا کے ہر امن پسند شخص کی یہ دعا ہوگی کہ بر صغیر ہند میں دائمی امن قائم ہو کیوں کہ لوگ آج غریبی، تنگ دستی، بیروزگاری جیسے بھیانک مسائل سے جوج رہے ہیں۔ میرے دل میں بہت ساری باتیں ہیں لیکن کیا کروں
میری تحریر کی زد میں ابھی تو کچھ نہیں آیا
ابھی وہ کرب لکھنا ہے، جسے محسوس کرتا ہوں
۰۰۰٭٭٭۰۰۰