مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: خلیج فارس صرف ایک آبی گزرگاہ نہیں بلکہ ایران کی تاریخی اور تہذیبی شناخت کا ایک ناقابل تفکیک حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا نام ہے جو تاریخ کے مشکل مواقع پر بھی پتھر کی لکیر کی مانند ہمیشہ کے لیے ثبت ہوچکا ہے۔ اس خلیج کی ہر موج، ہزاروں سال پر محیط تہذیب، مزاحمت، ثقافت اور افتخار کی داستان سناتی ہے۔ خلیج فارس کا ذکر محض جغرافیائی حدود میں محدود نہیں، بلکہ یہ وہ نام ہے جو نہ صرف نقشوں پر بلکہ دلوں میں بھی کندہ ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ حالیہ برسوں میں خلیج فارس ایک اور میدان جنگ میں بدل چکی ہے۔
اب کی بار نہ تلواریں ہیں نہ توپیں، بلکہ الفاظ اور فریب کاری کے ہتھیار ہیں۔ کچھ طاقتیں آہستہ آہستہ اس کا نام تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اور یہ صرف لاعلمی نہیں بلکہ بغض اور سیاسی مقاصد کا شاخسانہ ہے البتہ یہ کوششیں بے سود اور بے نتیجہ ثابت ہوں گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی ایک تقریر میں تاریخی اور بین الاقوامی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس خلیج کے لیے جعلی نام استعمال کیا۔ اگرچہ ان کے الفاظ کو چند عرب زبان بولنے والے سامعین نے سراہا، مگر دنیا بھر کے ایرانیوں، غیرجانبدار ماہرین، اور بعض غیرمتعصب مؤرخین نے اس پر شدید ردِعمل دکھایا۔
کیا محض زبانی تکرار سے کوئی نام تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیا تاریخ کو مسخ کرکے حقیقت کو مٹایا جاسکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہم نہیں، بلکہ ہزاروں تاریخی دستاویزات دیتی ہیں۔
سب سے پہلا اور معتبر ثبوت قدیم نقشے ہیں۔ قدیم یونانیوں سے لے کر قرون وسطیٰ کے مسلمان جغرافیہ دانوں، پرتگالی ملاحوں سے لے کر یورپی مستشرقین تک سب نے اس خلیج کو "Persian Gulf” یا اپنی زبانوں میں اس کے ہم معنی نام سے یاد کیا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں مشہور یونانی جغرافیہ دان بطلیموس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف جغرافیہ میں اس خلیج کو "سینوس پرسس” (Sinus Persicus) یعنی خلیج فارس کے نام سے درج کیا۔ بعد ازاں اسلامی نقشوں میں بھی یہی نام باقی رہا۔ ابن حوقل، مسعودی، مقدسی اور دیگر مسلمان جغرافیہ دانوں نے بھی اسے "بحر فارس” کے طور پر یاد کیا ہے۔
عصرِ حاضر میں بھی، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے متعدد بار "خلیج فارس” کے نام کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ 1990 کی دہائی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ اس آبی خطے کا واحد معتبر اور مستند نام بین الاقوامی دستاویزات میں "Persian Gulf” ہے۔ حتی کہ برطانیہ، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک کی انیسویں اور بیسویں صدی کی سرکاری دستاویزات میں بھی اس کے سوا کوئی نام موجود نہیں۔
اس نام کو بدلنے کی کوششیں حالیہ سیاسی مخاصمتوں کا شاخسانہ ہیں۔ خلیج فارس کے کنارے واقع بعض عرب ممالک، جن کو سیاسی شناخت بیسویں صدی میں ملی، آج تیل کے پیسوں اور سیاسی لابنگ کے ذریعے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن تاریخ کی یادداشت اتنی کمزور نہیں کہ وہ پیٹرو ڈالرز سے مٹ جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر سیاست دانوں کے بیانات اگرچہ وقتی طور پر خبروں کی زینت بن سکتے ہیں، مگر طویل مدتی تناظر میں وہ تاریخی حقیقت کے سامنے رنگ کھو بیٹھیں گے۔ کوئی صدر، کوئی بادشاہ یا کوئی میڈیا ادارہ ہزاروں سال پر محیط سچائی کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ہم وہ قوم نہیں جو تحریف پر خاموش بیٹھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ہر سال یوم خلیج فارس مناکر کو اس نام کی اصالت کا دفاع کرتے ہیں۔
یہ دن ایرانیوں کی 1622ء میں پرتگالی قابضین پر فتح اور انہیں جنوبی سواحل سے نکال باہر کرنے کی یادگار ہے۔
اگر ہم سے "خلیج فارس” کا نام چھین لیا جائے، تو گویا ہماری روح کا ایک حصہ چھین لیا گیا۔ اور ہم وہ قوم نہیں جو بے روح زندگی گوارا کرے۔
خلیج فارس کی موجیں آج بھی فارسی میں گفتگو کرتی ہیں۔ جنوبی ساحلوں کی راتوں کے سکوت میں، نسیم "فارس” کا نام لیے بغیر نہیں رہتی اور سمندر کی لہر کے لبوں سے یہ صدا بلند ہوتی ہے:
"میں خلیج فارس ہوں — نہ کچھ زیادہ، نہ کچھ کم!”
اور ہم، اس عظیم نام کے وارث، اپنی آخری سانس تک اس کی نگہبانی کرتے رہیں گے۔