71 فیصد بجلی پلانٹ اخراج کے معیار پر کھرے نہیں اترے، زہریلی ہوا سے عوام کی صحت پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ

71 فیصد بجلی پلانٹ اخراج کے معیار پر کھرے نہیں اترے، زہریلی ہوا سے عوام کی صحت پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ

سی آر ای اے کے تجزیہ کے مطابق ملک میں 537 میں سے 380 بجلی پلانٹ اخراج سے متعلق ضوابط پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ ان میں دہلی کے 300 کلومیٹر کے دائرے  میں واقع 11 پلانٹ قومی راجدھانی علاقے کے بھی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

سنٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے طریقوں پر عمل درآمد میں تاخیر کرنے پر سوال اٹھائے ہیں۔ سی آر ای اے کے ذریعہ کیے گئے ایک تجزیہ سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں 537 میں سے 380 بجلی پلانٹ اخراج سے متعلق ضوابط پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ اس طرح 71 فیصد بجلی پلانٹ اخراج کے معیار پر پوری طرح کھرے نہیں ہیں۔ ان میں دہلی کے 300 کلومیٹر کے دائرے  میں واقع 11 پلانٹ قومی راجدھانی علاقے کے بھی ہیں۔ یہاں تک کہ یہ پلانٹ سلفر ڈائی آکسائڈ کے لیے طے حد سے بھی ڈیڑھ سے دس فیصد زیادہ اخراج کر رہے ہیں جس سے عوامی صحت پر منفی اثر کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

تجزیہ کے مطابق 25-2024 میں ملک بھر کے کُل 537 کوئلہ پر مبنی بجلی پلانٹ میں سے 8 فیصد یعنی محض 44 پلانٹ میں ہی فلو گیس سلفرائزیشن (ایف جی ڈی) سسٹم لگائے گئے۔ 493 پلانٹ میں اب تک ایف جی ڈی نہیں لگے ہیں۔ 380 پلانٹ ایسے ہیں جو طے معیار سے زیادہ سلفر ڈائی آکسائڈ اخراج کر رہے ہیں۔

صرف 59 پلانٹ (12 فیصد) ضابطوں پر عمل کر رہے ہیں جبکہ 54 پلانٹ (11 فیصد) سے جڑے اعداد دستیاب نہیں ہیں۔ تجزیہ کے مطابق ان پلانٹ سے نکلنے والی 16 فیصد آلودگی نہ صرف آس پاس بلکہ دور دراز کے علاقوں تک بھی پہنچ رہی ہے۔

مطالعہ کے مطابق لوگوں کے اس سکنڈری پی ایم 2.5 آلودگی کے رابطے میں آنے کی بڑی وجہ گھریلو سرگرمیاں ہیں، جو اس کے قریب 22 فیصد کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد صنتوں کی حصہ داری 14 فیصد، بجلی پلانٹ اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سے بالترتیب 11-11 فیصد آلودگی ہو رہی ہے۔

نیشنل کلین ایئر پروگرام کے تحت نشانزد 122 میں سے 107 شہروں میں بھی 80 فیصد سے زیادہ آلودگی ان کی سرحدوں کے باہر سے آ رہی ہیں۔ لہٰذا صرف مقامی ذرائع پر قابو کرنے سے نیشنل کلین ایئر کوالیٹی اسٹینڈرڈ حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے میں اسے قابو کرنے کے لیے حکمت عملی کے تحت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

مطالعہ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹرانس باؤنڈری پی ایم 2.5 کے سب سے بڑے ذرائع جلائی جا رہی بایو گیس ہے جو اس کے قریب 32 فیصد کے لیے ذمہ دار ہے۔ وہیں توانائی پیداوار کی اس میں 16 فیصد جبکہ صنعتوں کی اس میں 15 فیصد حصہ داری ہے۔

رپورٹ کے مطابق 9 میں سے 11 اہم ایئر شیڈس کی پہچان بھی کی گئی ہے جو موسم کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ ریاستوں کے اندر اور باہر دونوں جگہ آلودگی کے پیٹرن کو متاثر کرتے ہیں۔ اس حالت میں سدھار کے لیے سخت ریگولیٹری میکانزم کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ اخراج ڈاٹا کی شفافیت اور عدم تعمیل پر سخت سزا کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے