سپریم کورٹ میں کل وقف ترمیمی قانون پر سماعت

نئی دہلی (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ وقف ترمیمی بل کے دستوری جواز کے خلاف داخل درخواستوں کی سماعت پیر کے دن کرنے والی ہے۔ سپریم کورٹ کے چھبتے سوالات پر حکومت نے متنازعہ قانون کی دو مرکزی دفعات پر عمل آوری معطل کردی تھی۔
مرکز نے 17 اپریل کو سپریم کورٹ کو تیقن دیا تھا کہ وہ نہ تو وقف املاک بشمول وقف بہ تصرف کو ڈی نوٹیفائی کرے گا اور نہ سنٹرل وقف کونسل میں 5 مئی تک کوئی تقررات کرے گا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے یہ یقین دلایاتھا۔
اُنہوں نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل کو بتایاتھا کہ پارلیمنٹ نے یہ قانون اچھی طرح بحث کے بعد منظور کیا ہے۔ حکومت کا موقف سنے بغیر اس پر روک نہ لگائی جائے۔ مرکز نے وقف جائیدادوں کے ڈی نوٹیفکیشن کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے کی سپریم کورٹ کی تجویز کی بھی سخت مخالفت کی تھی۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے مرکز کو درخواستوں کا ابتدائی جواب داخل کرنے دو ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے 5 مئی کو سماعت مقرر کی تھی۔ سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ پیر کے دن 5 درخواستوں کی سماعت کرے گی۔ وہ اس سے متعلق دیگر درخواستوں کی بھی سماعت کرے گی۔ مرکز نے 25 اپریل کو حلف نامہ داخل کرتے ہوئے ترمیمی قانون کا دفاع کیا تھا۔
اُس نے اِس پر مکمل امتناع کی مخالفت کی تھی۔ وزارت اقلیتی امور نے 1332 صفحات کا ابتدائی جوابی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے پرانے وقف قوانین کا حوالہ دیا تھا۔ مرکز نے سپریم کورٹ سے گزارش کی کہ وہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل کردرخواستیں خارج کردیں۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف کئی سیاسی جماعتیں جیسے ڈی ایم کے، وائی ایس آر سی پی، مجلس اور بائیں بازو عدالت سے رجوع ہوئیں۔
سیول سوسائٹی گروپس، غیر سرکاری تنظیموں، مسلم تنظیموں اور دیگر نے بھی اِس قانون کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں للکارا ہے۔ یو این آئی کے بموجب ممبئی میں مقیم سماجی کارکن محمد جمیل مرچنٹ جو حالیہ منظور شدہ اور نافذ العمل وقف (ترمیمی) ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے پانچ درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں، نے کہا ہے کہ ایکٹ کی منظوری سے پہلے, جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) بنائی گئی تھی, وہ "مکمل طور پر غیر متعلقہ” ہے۔
کے دلائل کا مدلل پیراگراف کے حوالے سے جواب دیا اور حکومت کے دعووں کو مسترد کرنے کے لئے قانونی جواز پیش کئے -ایکٹ پر عبوری روگ لگا کر عرضداشت پر مکمل سماعت کے بعد فیصلہ صادر کرنے کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ کے مشہور فیصلے ڈاکٹر جے شری راو بمقابلہ مہارشرا حکومت و دہگر فیصلہ عبدالرحمان بمقابلہ فقیر محمد شاہ ناگپور ہائی کورٹ کا حوالہ دیتے ہوِئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے –
اس سے متاثرہ لوگوں کے لیے واضح طور پر نقصان دہ ہے -مرچنٹ نے کہا کہ مرکزی حکومت جے پی سی کے کام پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، جس نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے سے پہلے کئی گروپوں کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ تاہم، انہوں نے استدلال کیا کہ ان مشاورت کا کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر قانون خود آئین کی واضح خلاف ورزی کرتا ہے تو وسیع بحث کسی قانون کو درست نہیں بنا سکتی۔