جوہری مسئلہ سیاسی رخ اختیار کرچکا ہے/دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے، علی لاریجانی

جوہری مسئلہ سیاسی رخ اختیار کرچکا ہے/دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے، علی لاریجانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری مسئلے کی نوعیت قانونی نہیں رہی بلکہ سیاسی ہوچکی ہے۔ اگر یہ مسئلہ محض قانونی ہوتا تو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اس پر فیصلہ صادر کرچکی ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر عالمی طاقتیں زور زبردستی کا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا دنیا میں آج بھی غنڈہ گردی کا نظام رائج ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اسے جوہری ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، اور وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی اور آئی اے ای اے کے قوانین پر عمل کررہا ہے مگر عالمی طاقتیں پھر بھی زور زبردستی سے کام لے رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس زور کا جواب کیسے دیا جائے۔

لاریجانی نے کہا کہ چونکہ بعض ممالک مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، اس لیے آزمانا چاہیے کہ آیا مذاکرات کارگر ثابت ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ تاہم صرف مذاکرات کافی نہیں، کیونکہ ایران پر لگائی گئی امریکی پابندیاں صرف جوہری مسئلے تک محدود نہیں بلکہ مختلف شعبوں پر محیط ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران گہری تہذیب و تمدن رکھتا ہے اور وہ کسی بھی قسم کی زور زبردستی کو برداشت نہیں کرتا۔ ہم ان ملکوں میں سے نہیں جن کی کوئی تاریخی بنیاد نہ ہو۔ ایرانی عوام باشعور اور باوقار ہیں۔ عالمی طاقتیں ایران سے بھی اسی طرح پیش آنا چاہتی ہیں جیسے کمزور ریاستوں سے آتی ہیں، جو ناممکن ہے۔

لاریجانی نے واضح کیا کہ مذاکرات کامیاب بھی ہوسکتے ہیں اور ناکام بھی، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا میں انصاف اور عقلانیت کا کتنا وجود باقی ہے۔

انہوں نے عالمی نظام کی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں جو قوانین اور ضوابط طے کیے جاتے ہیں، وہ بظاہر بین الاقوامی نظم کے لیے ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے پیچھے طاقت کا استعمال کارفرما ہوتا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ یہ وقت اپنی طاقت منوانے کا ہے، اسی لیے وہ ایران کے ساتھ ایسا برتاؤ کررہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ کیوں ایسا کر رہا ہے؟ چین نے امریکہ کے ساتھ آخر کیا کیا ہے؟

سابق ایرانی اسپیکر اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رکن علی لاریجانی نے کہا ہے کہ مشرق وسطی میں ابھرنے والی مقاومتی تحریکوں کی جڑیں خود عوام میں ہیں۔ ان کو وجود میں لانے میں ایران کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یمن میں مزاحمت اس وقت شروع ہوئی جب سعودی عرب نے حملہ کیا۔ یمنی عوام نے خود اپنے دفاع میں مزاحمت کی اور آج ایک مضبوط قوت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

لبنان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حزب اللہ ہم نے نہیں بنائی۔ جب اسرائیل نے بیروت پر قبضہ کیا اور لبنانی فوج ناکام ہوئی، تو عوام نے خود مزاحمت کی اور حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح عراق میں بھی مزاحمت ایران کی پیداوار نہیں بلکہ امریکی قبضے کے خلاف عوامی ردعمل تھا۔ ہم نے عراق میں مقاومتی تنظیم تشکیل نہیں دی بلکہ صرف مدد کی۔ جب امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا اور اس کی سیاسی خودمختاری پر حملہ کیا تو عوام نے مزاحمت کا راستہ چنا۔

لاریجانی نے امریکہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے یمن پر 800 بار حملے کیے اور اب بھی اسے قابو نہیں کر سکے تو مسئلہ ایران نہیں، بلکہ آپ کی اپنی حکمتِ عملی ہے۔

حزب اللہ اور حماس کو ختم کرنے کے اسرائیلی دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے کہ لاریجانی نے کہا کہ اگر حماس ختم ہوگئی ہے تو قیدیوں کا تبادلہ کس سے ہو رہا ہے؟ حماس آج بھی میدان میں ہے، اسی لیے دشمن اتنا برہم ہے۔ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف تمام تر حملوں کے باوجود صرف چند سو میٹر زمینی پیش قدمی کر سکا جو اس کی ناکامی کی علامت ہے۔

لاریجانی نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر یہ مزاحمتی گروہ ایران کے بازو ہیں، تو یہ آج بھی باقی ہیں۔ اور اگر نہیں، تو پھر ایران کو کمزور کہنا بھی بے معنی ہے۔ مزاحمت محض ایک نعرہ نہیں بلکہ عوامی شعور کا مظہر ہے۔ یہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ظلم و جبر باقی ہے۔

[]

cexpress

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے